• صارفین کی تعداد :
  • 3922
  • 5/31/2010
  • تاريخ :

اصالتِ روح (حصّہ هفتم)

بسم الله الرحمن الرحیم

اصالتِ روح (حصّہ چهارم)

اصالتِ روح (حصّہ پنجم)

اصالتِ روح (حصّہ ششم)

لامارك كہتا ہے: "زندگی فیزیكی كیفیت كے علاوہ كچھ نہیں، زندگی كی تمام كیفیتیں فیزیكی یا كیمیاوی علل پر موقوف ہیں اور ان كا "مركز نمو" (منشا) جاندار كی مادّی تعمیر كے اندر ہے۔"

شاید لارمك نے سوچا كہ اگر حیاتی قوت اصالت ركھتی ہے تو فیزیكی اور كیمیاوی علل سے اس كا تعلق اور اس كے (مركز نمو) منشا كو جاندار كے مادّے میں نہ ہونا چاہیے۔

اس سے پہلے بیان ہوچكا ہے كہ دیكارت كا نظریہٴ دوئی اور نظریہٴ افلاطون كی طرف اس كی الٹی دوڑ بہت مشكل سے تمام ہوئی كیونكہ اس نے دانشوروں كو اس طرف اكسایا كہ وہ حیاتی طاقت كی اصالت كے بارے میں ہی سوچتےرہیں اور حیات و بدن كے جوہری اور ذاتی رابطہ كو نگاہوں سے دور ركھیں اور دو مخالف قطبوں كو مركز فكر بنائیں۔

كیونكہ دیكارت خود نظریہ دوئی كی راہ سے وارد میدان ہوا۔ اس نے دیكھا كہ جسم جس كی خاصیت ہے، بعد … اور نفس، جس كی خاصیت ہے، فكر و شعور اور ان دونوں كے درمیان ہیں دو گہرے درّے، لہٰذا وہ مجبور ہوگیا كہ انسان كے علاوہ دوسرے جانداروں میں حیات كو اصلی طاقت ماننے سے انكار كرے، اور تعجب كی بات تو یہ ہے كہ انسان كے علاوہ وہ تمام حیوانات كے اعضاء و جوارح كو نہ صرف مشینی مانتا بلكہ ان میں احساس و ادراك كا منكر بھی تھا، اس كا دعویٰ تھا كہ حیوان فاقد احساس و ادراك ہے، لذّت و الم (خوشی اور دكھ درد) كو محسوس نہیں كرتا اور یہ جو ہم دیكھتے ہیں كہ خاص موقع پر چلتا، پھرتا اور گنگناتا ہے، یہ احساس و ارادہ پر منحصر نہیں، بلكہ ان مشینوں كو اس طرح سے بنایا گیا ہے، كہ وہ خاص موقعوں پر یہ آثار ظارہر كرتی ہیں اور ہم یہ خیال كرتے ہیں كہ احساس و ارادہ كے تحت كررہی ہیں!!!

بہر حال، حیاتی قوت كی اصالت كا نظریہ ان نظریات میں سے ہے جو نئی علمی تحقیقات كی بنا پر مورد تائید قرار پایا ہے اور خاص طور سے تكامل (ایولوشن) انواع كے نظریہ نے حیاتی قوت كی اصالت اور مادے نیز طبیعت كے بے جان عناصر كی طاقت پر اس كے تسلّط كو پہلے سے كہیں زیادہ ثابت كردیا۔ ڈاروین جو خود اس نظریہ كا موجود ہے، اگر چہ وہ حیاتی طاقت كی اصالت كو ثابت كرنے كے حق میں نہیں، لطف یہ ہے كہ یہی شخص جو اپنے كام كی بنیاد طبیعی انتخاب پر ركھتا ہے اور طبیعی انتخاب كو محض اتفاقی تغیّر كا نتیجہ قرار دیتا ہے، جب انواع كی ترقی و پیش رفت اور تكامل كی منظم رفتار كی طرف دیكھتا ہے تو خود اپنے قول كے مطابق مجبوراً جاندار طبیعت كیلئے "وجود مشخص" كا قائل ہوجاتا ہے۔ حیاتی قوت كی اصالت كا اثبات، ڈاروین كی تحقیق كا موضوع نہ تھا۔ شروع میں اس نے كام شروع كیا تھا، لیكن خود بخود اس نتیجہ پر جاپہنچا، یہاں تك كہ اس كے زمانے ہی میں كچھ لوگوں نے اس سے كہا كہ "تم تو طبیعی انتخاب سے مراد ایك ایسی فعال طاقت لیتے تھے جو ماوراء طبیعت ہے۔"

وہ لوگ جنہوں نے انسانی نفسیات كے پہلوؤں كا مطالعہ كیا، بغیر اس كے كہ وہ حیاتی قوت كی اصالت كے بارے میں جستجو كریں اور بغیر اس كے كہ وہ اپنے فلسفیانہ تحقیقات كے نتائج سے آگاہ ہوں، اسی نتیجہ پر جاپہنچے۔

استاد شہید مرتضیٰ مطہری

مترجم: خادم حسین

(تنظیم و پیشكش گروہ ترجمہ سایٹ صادقین)