• صارفین کی تعداد :
  • 4261
  • 7/6/2010
  • تاريخ :

اصالتِ روح (حصّہ نهم)

بسم الله الرحمن الرحیم

اصالتِ روح (حصّہ چهارم)

اصالتِ روح (حصّہ پنجم)

اصالتِ روح (حصّہ ششم)

اصالتِ روح (حصّہ هفتم)

اصالتِ روح (حصّہ هشتم)

اس سے پہلے بھی كہا جا چكا ہے كہ اس سلسلے میں سب سے بڑا اعتراض محض جسم و جان اور مادہ و حیات كی نوعیتِ اختلاف كی تشخیص سے عبارت نہیں، كیونكہ یورپی محققین كے ذریعے حیاتی قوت كی اصالت كے بارے میں شواہد پیش كرنے سے پہلے انہیں سطحی مشاہدات كی مدد سے بھی اس سلسلے میں ثبوت اور دلائل فراہم ہوسكتے تھے۔ دوسرا بڑا اشكال، جسم و جان كے تعلق كے بارے میں طرز تصور كا ہے، جس نے بہت سے مفكرین اور دانشوروں كو حیاتی قوت كی اصالت كے بارے میں سوچنے سے دور ركھا اور جیسا كہ اس سے پہلے بیان كیا جاچكا ہے كہ اس عظیم مشكل كا حل " صدرالمتاٴلھین" كے فلسفے میں بہت ہی اچھے انداز میں پیش كیا گیا ہے۔

حیاتی قوت كی اصالت ایسا مسئلہ ہے جو ماوراء الطبیعت پہلو ركھتا ہے، اگر حیات، مادے كا اثر و خاصیت ركھتی تو ماوراء الطبیعت پہلو اس میں نہ ہوتا۔ كیوں كہ حیات و زندگی مادے میں حالت تركیب و انفرادكے اثر كی طرح پوشیدہ رہتی، درحقیقت جب كبھی جاندار موجود پیدا ہوتا ہے تو مادے میں كسی قسم كی تخلیق یا فوق العادہ چیز رونما نہیں ہوتی، لیكن حیاتی قوت كی اصالت كے نظریہ كے مطابق، مادہ بذات خود فاقد حیات و زندگی ہے اور جب مادے میں استعداد و صلاحیت پیدا ہوتی ہے اس وقت زندگی اور حیات كا وجود ظاہر ہوتا ہے یا دوسرے الفاظ میں، مادہ اپنی تكاملی سیر و حركت كے دوارن زندگی پاكر اس كمال تك رسائی حاصل كرتا ہے جو اس میں پہلے موجود نہ تھا، اسی كے نتیجہ میں وہ خاص قسم كی فعالیت حاصل ہو جاتی ہے، جس سے وہ پہلے عاری تھا، لہٰذا كسی بھی موجود كا زندہ ہونا درحقیقت اس كی خلقت و ایجاد كی دلیل ہے۔

ممكن ہے یہاں یہ كہا جائے كہ یہ بات درست ہے كہ بے جان مادہ انفرادی حالت میں حیاتی خاصیت نہیں ركھتا، لیكن مادے كے اجزاء میں تركیب اور فعل و انفعال كے نتیجہ میں اگر حیات كی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے تو اس میں كیا قباحت ہے؟

اس سوال كا جواب یہ ہے كہ چند مادی یا غیر مادی اجزاء جب ایك دوسرے كے ساتھ تركیب پاكر ایك دوسرے پر متقابل اثر ڈالتے ہیں، تو اس عمل كے نتیجہ میں كچھ اجزاء اثر ڈالتے ہیں اور كچھ قبول كرتے ہیں۔ یہاں تك كہ " مزاج متوسط" پیدا ہوجاتا ہے اور یہ بات محال ہے كہ چند جزء تركیب پاكر ایك ایسے اثر كو جنم دیں جو اجزاء ان كے " مزاج متوسط" كے آثار كے ماسوا رہے، مگر  یہ كہ ان اجزاء كی تركیب خود اپنی قوت سے بڑھ كر ایك ایسی جوہری قوت كی تشكیل كا باعث بنے جو اُن اجزاء كو واقعی وحدت بخشے، اب سوال یہ ہے كہ: مادے كے اجزاء میں تركیب اور فعل وانفعال كے نتیجہ میں اگر حیات كی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے تو اس میں كیا قباحت ہے؟ ایك ایسا سوال ہے جو تشریح كا محتاج ہے۔ مادے كے اجزاء میں فعل و انفعال سے مراد اگر حیاتی قوت كی تشكیل ہے اور حیاتی قوت پیدا ہوجاتی ہے تو بات قابل قبول ہے اور اگر یہ مراد ہے كہ حیاتی قوت كے بغیر مادے كے اجزا ء میں حیاتی قوت كی خاصیت (جو اجزاء كی خاصیت سے مختلف سے) پیدا ہوجاتی ہے تو محال و ممتنع ہے۔

ایك مفروضہ اور باقی رہا، مفروضہ یہ ہے كہ مادہ بذات خود فاقد حیات ہے، اور حیات ایك ایسی قوّت ہے جو بے جان مادے كے تمام قوا پر مسلط ہے، لیكن یہاں پر دانشوروں كی تحقیق كے مطابق فرض كیا جائے، كہ بے جان موجودات میں (انرجی) قوت كی ایك مقدار معیّن و ثابت ہے اور انكا وجود و عدم، خلق ہونا نہیں، بلكہ مادے كے اجزاء كی جمع و تفریق اور انرجی كا نقل و انتقال سے خاص قسم كی قوت اگر حیات كے لئے بھی فرض كی جائے تو نتیجتہً حیاتی قوتیں بھی غیر حیاتی قوّتوں كی طرح خلق و ایجاد نہ ہوں گی، بلكہ، جمع و تفریق اور (انرجی) قوتوں كے نقل و انتقال كے نتیجہ میں ایك خاص موقع پر یكجا جمع ہوجائیں گی۔ لہذا زندہ ہونا بھی خلق و ایجاد نہیں۔

اس مفروضے كے بے نتیجہ ہونے كے بارے میں ہم كہیں گے: سب سے پہلے حیاتی (انرجی) قوت كے بارے میں توضٰح دی جائے، كہ آیا یہ قوت بذات خود بے جان میں ہوتی ہے یا جاندار میں؟ اور اگر دوسرے مفروضہ كے مطابق جاندار میں ہوتی ہے، تو آیا یہ ایسی شعئی ہے جو حیات ركھتی ہے؟ یعنی حیات كیا اُس شئی سے جدا اور مستقل چیز ہے، جس كے ساتھ وہ مل جل كر رہتی ہے یا كوئی تیسرا مفروضہ یعنی عین حیات ہے؟ پپہلے اور دوسرے مفروضہ كے مطابق حیاتی قوت اور دوسری قوّتوں میں (ان كے حیاتی یا باعثِ حیات ہونے كے اعتبار سے) كسی قسم كی حیات قوت نہیں۔ اس لئے كہ یہ قوت یا تو مكمل طور سے زندہ نہیں (پہلا مفروضہ) اور یا پھر باعث ِحیات وہ اضافہ شدہ چیز ہے جو اس كی ذات میں نہیں لیكن ا س سے وابستہ ہے۔ رہی تیسرے مفروضہ كی بات تو اس كے معنے یہ ہیں كہ (حیات اور حیاتی قوت) وہ مجرد موجود ہے جو اپنے آثار باقی ركھتے ہوئے تنزل پیدا كركے مادے كی شكل اختار كرتا ہے۔ یہ محال ہے۔ البتہ تنزّل كے نام سے جو فلسفی دعویٰ كرتے ہیں كہ كائنات اور مادہ، ماوراء طبیعت كی تنزّل یافتہ شكل ہے تو اس كی نوعیت قوت كے نقل و انتقال اور تغیر اشكال كی نوعیت سے مختلف اور بذات خود ایك جدا بحث ہے۔ ان دونوں كو ایك نہیں سمجھنا چاہے ۔ دوسرے یہ كہ بالفرض بے جان مادّے میں خلق و ایجاد كے منكر ہوں، اور ان موجودات كی تخلیق كو مادے كے اجزاء كی جمع و تفریق اور قوتوں كے نقل و انتقال كے سوا اور كچھ نہ جانیں، تو جاندار موجودات میں دانشوروں كی رائے كے مطابق یہ بات صادق نہین آتی۔ حیات كے خصوصیات میں ایك خصوصیت یہ بھی ہے كہ اس كے لئے كوئی معیّن اور ثابت مقدار فرض نہیں كی جاسكتی اور ایك نقطہ كی دوسرے نقطہ كی جانب حیات كے انتقال اور موجودات كے زندہ ہونے كو بھی درحقیقت ایك قسم كا تناسخ كہنا مناسب نہیں۔ اسلئے كہ حیات كی كوئی ثابت اور معین مقدار نہیں، جس دن سے زمین پر حیات ظاہر ہوئی ہے اس دن سے ترقی كی طرف گامزن ہے اور اگر اتفاقاً ختم ہوجائے یعنی بہت سے جاندار موت كے گھاٹ اتر جائیں تو وہ انرجی كسی دوسرے نقطہ پر متمركز نہیں ہوتی۔ البتہ حیات و موت ایك قسم كا بسط و قبض ہے۔ لیكن ایسا بسط و قبض جس كا تعلق كائنات كے وجودی درجہ سے كہیں بلند و بالاتر ہے، وہ فیض ہے جو غیب سے آتا اور اسی جانب واپس ہوجاتا ہے۔

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری

مترجم: خادم حسین

پیشكش گروہ ترجمہ سایٹ صادقین