امام محمد باقر عليہ السلام کا عہد (حصّہ سوّم)
خدا وند عالم نے ٧٠ ھ کو حکومت علوي کي تشکيل کے لئے مقدر فرمايا تھا ليکن امام حسين عليہ السلام کے قتل نے خدا وند عالم کو لوگوں سے اتنا ناراض کرديا کہ اس نے اس وقت کو ١٤٠ ھ تک ملتوي کرديا اور پھر ہم نے تم کو اس وقت کي خبردي اور تم نے اس کو افشائ کرديا اور پردہ راز کو اس سے اٹھاديا لہذا اب پروردگار عالم نے ہم کو اس وقت کي کوئي خبر نہيں دي ہے اور خدا کسي بھي چيز کے بارے ميں جيسا چاہتا ہے محو يا اثبات کرديتا ہے، دفتر تقدير اسي کے پاس ہے ۔‘‘
ابو حمزہ ثمالي کہتے ہيں: فحدثت بذلک ابا عبدا للہ (ع) فقال : قد کان کذلک ۔‘‘
’’ ميں نے امام صادق (ع) کي خدمت ميں اس کا تذکرہ کيا ، آپ (ع) نے فرمايا : ہاں ايسا ہي تھا ۔‘‘
١٤٠ ھ امام صادق عليہ السلام کي زندگي کے اواخر کا سال تھا ۔ اور يہ وہي چيز ہے جو اس حديث مبارکہ کے ديکھنے سے قبل ہي آئمہ عليہم السلام کے حالات زندگي سے ميں نے اخذ کر لي تھي۔ چنانچہ ميري نظر ميں وہ ممکنہ حکومت جس کے لئے امام سجاد (ع) نے اس انداز سے اور امام محمد باقر (ع) نے اس دوسرے طريقے سے جدوجہد کي اصولي طور پر امام جعفر صادق (ع)کے زمانے ميں قائم ہوجاني چاہئيے تھي کيونکہ امام صادق (ع) کي شہادت ١٤٨ ھ ميں ہوئي ہے اورخدا کي طرف سے تاسيس حکومت کا وعدہ ١٤٠ھ کے لئے تھا اور ١٤٠ ھ کي اہميت ١٣٥ ھ کے بعد کے دنوں کي اہميت کے ذيل ميں ہمارے پيش کئے گئے،مفروضہ برسر اقتدار نہ آتا اور بنو عباس کي حکومت نہ بنتي تو حالات يقيناً کچھ اور ہوتے۔ گويا حالات کے تحت تقدير الہي يہي تھي کہ ١٤٠ ھ ميں ايک الہي اسلامي حکومت قائم ہوجاني چاہئيے تھي۔
اب يہ ايک دوسري بحث ہے کہ آيا اس آئندہ کے سلسلہ ميں خود آئمہ عليہم السلام کي بھي توقعات بندھي ہوئي تھيں اور وہ اس دن کے منتظر تھے يا يہ کہ وہ پہلے سے جانتے تھے کہ قضائ الہي کچھ اور ہي ہے ؟ في الحال ہم اس بحث کو چھيڑنا نہيں چاہتے ممکن ہے ايک دوسرے مستقبل باب ميں اس پر بحث کي جائے۔ سر دست ہماري بحث امام محمد باقر عليہ السلام کے حالات کے سلسلہ ميں ہے کہ آپ (ع) نے واضح الفاظ ميں تصريح کي تھي کہ ١٤٠ ھ حکومت الہي کي تشکيل کے لئے معين تھا ليکن چونکہ ہم نے اس کي تم کو خبر دے دي اور تم اس کو پردہ راز ميں نہ رکھ سکے لہذا خداوند عالم نے اس ميں تاخير کردي۔ اس طرح کي اميد بندھانا اور وعدے کرنا امام محمد باقر (ع) کے دور کا اہم امتياز ہے۔
امام محمد باقر عليہ السلام کي زندگي کے بارے ميں گھنٹوں بحث کي ضرورت ہے تاکہ آپ (ع) کي زندگي کي تصوير واضح ہوسکے۔ ميں اس سلسلے ميں بھي طولاني بحثيں کرچکا ہوں۔ مختصر يہ کہ حضرت (ع) کي زندگي ميں سياسي جدوجہد کا عنصر بالکل واضح ہے، البتہ آپ (ع) گرم مسلح جدوجہد کے حق ميں نہ تھے ۔ چنانچہ جب آپ (ع) کے بھائي زيد ابن علي آپ (ع) سے مشورہ کرتے ہيں تو حضرت (ع) انہيں قيام سے منع فرماتے ہيں اور جناب زيد آپ (ع) کي اطاعت کرتے ہوئے خاموش ہوجاتے ہيں۔
يہ جو ديکھنے ميں آتا ہے کہ کچھ لوگ جناب زيد کي اہانت پر اتر آتے ہيں کہ امام (ع) نے تو انہيں قيام سے منع کيا تھا پھر بھي جناب زيد اٹھ کھڑے ہوئے اور امام (ع) کي اطاعت نہيں کي، يہ ايک غلط تصور ہے۔ جب امام محمد باقر عليہ السلام نے جناب زيد کو قيام سے منع فرمايا تو انہوں نے امام (ع) کي اطاعت کي اور قيام نہ کيا۔ پھر جب امام صادق عليہ السلام کا دور آيا تو انہوں نے امام صادق (ع) سے مشورہ کيا اور امام (ع) نے نہ صرف قيام سے منع نہيں فرمايا بلکہ اس سلسلے ميں ان کي حوصلہ افزائي بھي کي۔ يہي وجہ ہے کہ جناب زيد کي شہادت کے بعد امام صادق (ع) آرزو کرتے ہيں کہ کاش ميں بھي زيد کے ساتھيوں ميں ہوتا۔ لہذا جناب زيد کے ساتھ يہ اہانت آميز برتاو کسي طور درست نہيں ہے۔
بہر حال ، امام محمد باقر عليہ السلام نے مسلحانہ قيام کيوں قبول نہ کيا ليکن آپ (ع) کي زندگي ميں سياسي ٹکراو واضح طور پر نظر آتا ہے اور اسے آپ (ع) کي سيرت ميں سے سمجھا جاسکتا ہے جبکہ سيد سجاد (ع) کي زندگي ميں واضح سياسي ٹکراو کا احساس نہيں ہوتا۔
جب اس عظيم ہستي کا دور حيات آخري منزلوں پر پہنچنے لگتا ہے تو ہم ديکھتے ہيں کہ حضرت اپني سياسي جدوجہد کو ميدان منيٰ ميں عزاداري کے ذريعے جاري رکھتے ہيں۔ آپ (ع) وصيت کرتے ہيں کہ دس برس تک منيٰ ميں آپ (ع) پر گريہ کيا جائے (تند بني النوادب بمنيٰ عشر سنين)يہ دراصل اسي سياسي جدوجہد کو جاري رکھنے کا ايک طريق ہے۔
امام محمد باقر عليہ السلام کي زندگاني ميں عام طور پر امام حسين عليہ السلام پر گريہ کے سلسلہ ميں حکم ملتا ہے چنانچہ اس ذيل ميں مسلمہ روايات موجود ہيں ليکن اور کسي کے سلسلہ ميں مجھے ياد نہيں کہ اس طرح کا حکم ديا گيا ہو سوائے اس کے کہ امام رضا عليہ السلام کے بارے ميں اتنا ملتا ہے کہ جب آپ (ع) وطن سے رخصت ہونے لگے تو اپنے اہل خاندان کو جمع کيا تاکہ آپ (ع) پر گريہ کريں اور يہ اقدام مکمل طور پر سياسي مقصد کا حامل ہے۔ البتہ يہ امام (ع) کي رحلت سے قبل کا واقعہ ہے۔ (امام حسين (ع) کے سوا ) محض امام محمد باقر عليہ السلام کي شہادت کے بعد گريہ کا حکم نظر آتا ہے اور امام (ع) وصيت کرتے ہيں اور اپنے مال ميں سے آٹھ سو درہم ديتے ہيں کہ ان کے ذريعہ منيٰ ميں يہ عمل انجام ديا جائے۔
منيٰ عرفات و مشعر بلکہ خود مکہ سے بھي مختلف جگہ ہے۔ مکہ ميں حاجي متفرق رہتے ہيں، ہر شخص اپنے اپنے کام ميں مشغول ہوتا ہے۔ عرفات کا قيام زيادہ سے زيادہ صبح سے عصرتک رہتا ہے۔ صبح لوگ تھکے ماندے پہنچتے ہيںاور عصر کے وقت واپسي کي جلدي رہتي ہے تاکہ اپنا کام انجام دے سکيں۔ مشعر ميں رات کے وقت چند گھنٹوں کا قيام رہتا ہے اس کي حيثيت منيٰ جاتے ہوئے ايک گزرگاہ کي سي ہے۔ ليکن منيٰ ميں مسلسل تين راتيں، گزارني ہوتي ہيں۔ ايسے بہت کم لوگ ہوتے ہيں جو اس دوران ميں مکہ چلے جاتے ہوں اور رات کو منيٰ لوٹ آتے ہيں۔
زيادہ تر لوگ وہيں ٹھہرتے ہيں۔ خاص طور سے اس زمانے ميں جبکہ وسائل سفر بھي آساني سے مہيا نہ ہوتے تھے۔ حقيقت تو يہ ہے کہ اس وقت عالم اسلام کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد تين شبانہ روز ايک ہي جگہ جمع رہتے تھے۔ ہر شخص با آساني درک کرسکتا ہے کہ تبليغات کے لئے اس سے بہتر کوئي دوسري جگہ نہيں مل سکتي۔ جو پيغام بھي پورے عالم اسلام ميں پہنچانا مقصود ہو وہ يہاں سے بخوبي نشر کيا جاسکتا ہے۔ خصوصاً اس دور ميں جبکہ آج کي طرح ريڈيو، ٹيلي ويژن ، اخبارات يا اسي طرح کے دوسرے ذرائع ابلاغ موجود نہ تھے۔
جب کچھ لوگ اولاد پيغمبر ۰ ميں سے ايک فرد پر گريہ و زاري کرتے نظر آتے ، تو لازماً وہاں موجود لوگوں کے دلوں ميں سوال اٹھتا کہ ان لوگوں کي اشک ريزي کا کيا سبب ہے؟ کسي مرنے والے پر اتني مدت تک اس شدت کے ساتھ گريہ وزاري نہيں ہوتي، کيا اس متوفي پر کوئي ظلم ہوا ہے؟ کيا اسے ظالموں نے قتل کيا ہے؟ کس نے اس پر ظلم کيا ہے؟۔۔۔ اس طرح کے بے شمار سوالات لوگوں کے ذہنوں ميں پيدا ہوتے۔ اور يہ ايک انتہائي گہرا ، سوچا سمجھا اور جچا تلا سياسي اقدام ہے۔
امام محمد باقر عليہ السلام کي سياسي زندگي کا مطالعہ کرتے وقت ايک اور نکتہ کي طرف ميري توجہ مبذول ہوئي اور وہ يہ کہ اپني خلافت کے حق ميں استدلال کا جو طريقہ پہلي صدي ہجري کے نصف اول ميں اہل بيت عليہم السلام کي زبان پر جاري رہا ہے امام محمد باقر عليہ السلام بھي اسي کي تکرار کرتے نظر آتے ہيں۔ اس استدلال کا خلاصہ يہ ہے کہ پيغمبر ۰ اسلام کے عرب ہونے کي وجہ سے عرب عجم پر فخر کرتے ہيں، آنحضرت کي قربت کي وجہ سے قريش غير قريش پر فخر کرتے ہيں۔ اگر ان لوگوں کا فخر کرنا صحيح ہے تو ہم تو پيغمبر ۰ کے خاندان اوراولاد سے ہيں لہذا سب پر اولويت رکھتے ہيں، اس کے باوجود ہم کو اس حق سے محروم کرکے دوسرے اپنے آپ کو پيغمبر ۰ کي حکومت کا وارث قرار دئيے بيٹھے ہيں۔ اگر پيغمبر ۰ کي قربت قريش کے غير قريش پر اور عرب کے غير عرب پر امتياز و افتخار کي وجہ ہے تو يہ دوسروں پر ہماري برتري اور اولويت کو بھي ثابت کرتي ہے۔ يہ وہ استدلال ہے جو ابتدائي دور ميں بارہا اہل بيت عليہم السلام کي زبان سے بيان ہوا ہے اور اب دوبارہ ٩٥ ھ سے ١١٤ ھ کے درميان امام محمد باقر (ع) اپنے عہد امامت ميں ان کلمات کي تکرار فرماتے ہيں۔ اور اپني خلافت کے لئے اس استدلال کو سامنے لانا بڑي معنويت رکھتا ہے۔
بشکریہ شيعه اسٹیڈیز ڈاٹ کام
متعلقہ تحریریں: امام(ع) کي عمومي مرجعيت
باقرِ علومِ اہلبيت عليہم السلام
امام محمد باقر عليہ السلام اور سياسي مسائل
امام محمد باقر علیہ السلام کے نام رسول اکرم (ص) کا سلام
پانچویں امام
حضرت امام باقر (ع) کے دور میں علوم اھلبیت علیھم السّلام کی اشاعت
امام محمد باقر (ع) کی شہادت
حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کی مبارک زندگی کا مختصر جائزه
یوم ولادت با سعادت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
امام محمد باقر (ع) کی علمی ہدایات وارشادات