منتظرین کی ذمّہ داریاں
دینی رھبروں کے ذریعہ احادیث اور روایات میں ظھور کا انتظار کرنے والوں کی بھت سی ذمّہ داریاں بیان ھوئی ھیں، ھم یھاں پر ان میں سے چند اھم ذمّہ داریاں کو بیان کرتے ھیں۔
امام کی پہچان
امام علیہ السلام کی شناخت اور پہچان کے بغیر راہ انتظار کو طے کرنا ممکن نھیں ھے، انتظار کی وادی میں صبر و استقامت کرنا امام علیہ السلام کی صحیح شناخت سے وابستہ ھے، لہٰذا امام مھدی علیہ السلام کے اسم گرامی اور نسب کی شناخت کے علاوہ ان کی عظمت اور ان کے رتبہ و مقام کی کافی مقدار میں شناخت بھی ضروری ھے۔
”ابو نصر“ امام حسن عسکری علیہ السلام کےخادم،امام مھدی علیہ السلام کی غیبت سے پھلے امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوئے، امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) نے ان سے سوال کیا: کیا مجھے پہچانتے ھو؟ انھوں نے جواب دیا: جی ھاں، آپ میرے مولا و آقا اور میرے مولا و آقا کے فرزند ھیں! امام علیہ السلام نے فرمایا: میرا مقصد ایسی پہچان نھیں ھے!؟ ابو نصر نے عرض کی: آپ ھی فرمائیں کہ آپ کا مقصد کیا تھا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
”میں پیغمبر اسلام (ص) کا آخری جانشین ھوں، اور خداوندعالم میری (برکت کی) وجہ سے ھمارے خاندان اور ھمارے شیعوں سے بلاؤں کو دور فرماتا ھے“۔
اگر منتظر کو امام علیہ السلام کی معرفت حاصل ھوجائے تو پھر وہ اسی وقت سے اپنے کو امام علیہ السلام کے مورچہ پر دیکھے گا اور احساس کرے گا کہ امام علیہ السلام اور ان کے خیمہ کے نزدیک ھے، لہٰذا اپنے امام کے مورچہ کو مضبوط بنانے میں پَل بھر کے لئے کوتاھی نھیں کرے گا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:
”جو شخص اس حال میں مرے کہ اپنے امام زمانہ کو پہچانتا ھو تو ظھور کا جلد یا تاخیر سے ھونا کوئی نقصان نھیں پھونچاتا، اور جو شخص اس حال میں مرے کہ اپنے امام زمانہ کو پہچانتا ھو تو وہ اس شخص کی طرح ھے جو امام کے خیمہ اور اور امام کے ساتھ ھو“۔
قابل ذکر ھے کہ یہ معرفت اور شناخت اتنی اھم ھے کہ معصومین علیھم السلام کے کلام میں بیان ھوئی ھے اور جس کو حاصل کرنے کے لئے خداوندعالم سے مدد طلب کرنا چاہئے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”حضرت امام مھدی علیہ السلام کی طولانی غیبت کے زمانہ میں باطل خیال کے لوگ (اپنے دین اور عقائد میں) شک و شبہ میں مبتلا ھوجائیں گے، امام علیہ السلام کے خاص شاگرد جناب زرارہ نے کھا: آقا اگر میں وہ زمانہ پائوں تو کونسا عمل انجام دوں؟
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اس دعا کو پڑھو:
”پرودگارا! مجھے تو اپنی ذات کی معرفت کرادے اور اگر تو نے مجھے اپنی ذات کی معرفت نہ کرائی تو میں تیرے نبی کو نھیں پہچان سکتا، پرودگارا! تو مجھے اپنے رسول کی معرفت کرادے اور اگر تو نے اپنے رسول کی پہچان نہ کرائی تو میں تیری حجت کو نھیں پہچان سکوں گا، پروردگارا! تو مجھے اپنی حجت کی معرفت کرادے اور اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی پہچان نہ کرائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ھوجاؤں گا“۔
قارئین کرام! مذکورہ دعا میں نظام کائنات کے مجموعہ میں امام علیہ السلام کی عظمت کی معرفت بیان ھوئی ھے اور وہ خداوندعالم کی طرف سے حجت اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا حقیقی جانشین اور تمام لوگوں کا ھادی و رھبر ھے جس کی اطاعت سب پر واجب ھے، کیونکہ اس کی اطاعت خداوندعالم کی اطاعت ھے۔
معرفت امام کا دوسرا پھلو امام علیہ السلام کے صفات اور ان کی سیرت کی پہچان ھے معرفت کا یہ پھلو انتظار کرنے والے کی رفتار و گفتار پر بھت زیادہ موثر ھوتا ھے، اور ظاھر سی بات ھے کہ انسان کو امام علیہ السلام کی جتنی معرفت ھوگی اس کی زندگی میں اتنے ھی آثار پیدا ھوں گے۔
متعلقہ تحریریں:
فتح كا انداز
فتح كا انداز (حصّہ دوّم)
فتح كا انداز (حصّہ سوّم)
فتح كا انداز (حصّہ چهارم)
فتح كا انداز (حصّہ پنجم)
فتح كا انداز (حصّہ ششم)
ظھور كی خاص علامتیں
ظھور كی خاص علامتیں (حصّہ دوّم)
ظھور كی علامتیں
ظھور كی علامتیں (حصّہ دوّم)
ظھور كی علامتیں (حصّہ سوّم)