فتح كا انداز (حصّہ ششم)
عدلیہ
ظلم و جور، ستم و استبداد نا انصافی و نا برابری كا قلع قمع كرنے كے لئے جہاں ایمان و اخلاق كی سخت ضرورت ھے وھاں صحیح نظام كے لئے طاقت ور عدلیہ كی بھی ضرورت ھے۔
صنعت اور ٹكنالوجی كی ترقی كی بنا پر یہ ممكن ھوجائے گا كہ انسانوں كی حركات و سكنات پر نظر ركھی جاسكے۔ ان اقدامات پر پابندی عائد كی جاسكے جو فساد كی خاطر كئے جاتے ھیں۔ مجرموں كی آوازیں ٹیپ كرنا، ان كے خفیہ اعمال كی تصویر لینا … ان چیزوں سے مجرموں پر گرفت مضبوط ھوجائے گی۔ مجرموں كی نگرانی كامیاب حكومت كے لئے بہت ضروری ھے۔
اس میں كوئی شك نہیں كہ حضرت كے زمانے میں اخلاقی تعلیمات اتنی عام ھوجائیں گی كہ عوام كی اكثریت سعادتمند معاشرے كی تشكیل كے لئے آمادہ ھوجائے گی۔ عوام كو اخلاقی تربیت سے سماج كے كافی مسائل حل ھوجائیں گے۔
لیكن انسان آزاد پیدا كیا گیا ھے۔ اپنے اعمال میں اسے پورا اختیار حاصل ھے۔ اس لئے اس بات كا امكان ضرور ھے كہ ایك صحت مند سماج میں ایسے افراد پائے جائیں جو خواہ مخواہ فساد پھیلانا چاھتے ھوں۔
اس بنا پر سماج كی مكمل اصلاح كے لئے وسیع الاختیار عدلیہ كی ضرورت ھے تاكہ مجرموں كو ان كے جرم كا بدلہ دیا جا سكے۔
جرائم كے علل و اسباب پر غور كرنے سے معلوم ھوتا ھے كہ بہت سے جرائم كو ان طریقوں سے روكا جاسكتا ھے:
1) عادلانہ تقسیم
ضروریات زندگی كی عادلانہ تقسیم سے كافی جرائم ختم ھوجاتے ھیں۔ عادلانہ تقسیم سے طبقاتی كش مكش ختم ھوجاتی ھے۔ ذخیرہ اندوزی، چور بازاری، گراں فروشی، اور سرمایہ داروں كی ناروا سختیاں نیز سرمایہ دارون كی باھمی چپقلیش … سب كافی حد تك ختم ھوجائیں گی۔
2) صحیح تربیت
صحیح تربیت بھی مفاسد اور جرائم كی روك تھام میں كافی موثر ھے۔ اس وقت دنیا میں فساد كی گرم بازاری، جرائم كی فراوانی اس وجہ سے ھے كہ تعلیم كے لئے تو ضرور نئے نئے طریقے اختیار كئے جارھے ھیں لیكن تربیت كا كوئی معقول انتظام نہیں ھے۔ تعلیم كو صحیح راستے پر لگانے كے بجائے تعلیم سے فساد كی شاھراہ تعمیر كی جارھی ھے غیر اخلاقی فلمیں، ڈرامے، كتابیں، اخبار، رسالے سب انسان كے اخلاقیات پر حملہ آور ھیں۔
لیكن جب تعلیم كے ساتھ ساتھ تربیت كا بھی جدید ترین معقول انتظام ھوگا، عالمی حكومت انسانوں كی تربیت پر بھرپور توجہ دے گی۔ وہ مفاسد اور جرائم خود بخود ختم ھوجائیں گے جن كا سرچشمہ عدم تربیت یا ناقص تربیت ھے۔
3) طاقت ور عدلیہ
ایك ایسی عدلیہ كا وجود جس سے نہ مجرم فرار كرسكتا ھے اور نہ فیصلوں سے سرتابی اس وقت دنیا كے ھر ملك میں عدلیہ موجود ھے۔ لیكن یا تو عدلیہ كی گرفت مجرم پر مضبوط نہیں ھے یا عدلیہ میں صحیح فیصلے كی صلاحیت نہیں ھے، یا دونوں ھی نقص موجود ھیں بلكہ بعض مجرم عدلیہ كی شہ پر جرم كرتے ھیں۔
لیكن ایك ایسی عدلیہ جس كی گرفت بھی مجرم پر سخت ھو اور جو فیصلوں میں رو رعایت نہ كرتی ھو، فساد اور جرائم كے انسداد میں ایك اھم كردار ادا كرتی ھے۔
اگر یہ تینوں باتیں یكجا ھوجائیں، عادلانہ تقسیم۔ صحیح تربیت اور طاقت ور عدلیہ تو آپ خود فیصلہ كرسكتے ھیں كہ كتنے عظیم پیمانے پر جرائم كا سد باب ھوجائے گا اور سماج كی اصلاح میں كس قدر موثر اقدام ھوگا۔
روایات سے استفادہ ھوتا ھے كہ حضرت مھدی سلام اللہ علیہا كے زمانۂ حكموت میں یہ تینوں عوامل اپنے عروج پر ھوں گے۔
مدّتِ حكومت
احادیث میں حضرت كی حكومت كے سلسلے میں مختلف روایتیں ملتی ھیں۔ روایتیں 5 سال سے 309 سال (جتنے دنوں اصحاب كہف غار میں سوتے رھے) تك ھیں۔ یہ مختلف اعداد ھوسكتا ھے كہ حكومت كے مختلف مراحل كی طرف اشارہ كر رھے ھوں مرحلہ انقلاب مرحلہ استحكام اور مرحلہ حكومت ان تمام باتوں سے قطع نظر یہ ایك حقیقت ھے كہ مُدّتوں كا انتظار، یہ تیاریاں، یہ مقدمات كسی ایسی حكومت كے لئے زیب نہیں دیتے جس كی عمر مختصر ھو۔ حضرت كی حكومت كی عمر یقیناً طولانی ھوگی تاكہ ساری زحمتیں ثمر آور ھو سكیں ویسے حقائق كا علم ذاتِ احدیت كو ھے۔
ختم شد.
متعلقہ تحریریں:
فتح كا انداز (حصّہ چهارم)
فتح كا انداز (حصّہ پنجم)