• صارفین کی تعداد :
  • 3017
  • 8/11/2010
  • تاريخ :

فتح كا انداز (حصّہ دوّم)

امام مھدي(عج)

حدیث

احادیث میں ایسی پر معنی تعبیریں ملتی ھیں جن سے گزشتہ باتوں كے جواب واضح ھوجاتے ھیں۔ ذیل كی سطروں میں صرف چند حدیثیں قارئین كی نظر كر رھے ھیں۔

1) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا كہ:

ان قائمنا اذا قام اشرقت الارض بنور ربھا واستغنی العباد من ضوء الشمس 1

"جس وقت ھمارے قائم قیام فرمائیں گے اس وقت زمین اپنے پروردگار كے نور سے روشن ھوجائے گی اور بندگان خدا سورج كی روشنی سے بے نیاز ھوجائیں گے۔"

اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ھے كہ اس وقت روشنی اور انرجی كا مسئلہ اس قدر آسان ھوجائے گا كہ دن و رات سورج كے بجائے ایك دوسرے نور سے استفادہ كیا جاسكے گا۔ ھوسكتا ھے كہ بعض لوگ اس چیز كو معجزے كی شكل دیں۔ لیكن در حقیقت یہ اعجاز نہ ھوگا بلكہ یہ ٹكنا لوجی اور صنعت كے ترقی یافتہ دور كی طرف اشارہ كیا گیا ھے۔

اتنے زیادہ ترقی یافتہ دور كے مقابلے میں آج كے جدید ترین اسلحوں كی كیا حقیقت ھوگی۔

2) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے جناب ابو بصیر سے ارشاد فرمایا كہ:

انہ اذا تناھت الامور الی صاحب ھذا الامر رفع اللہ تبارك وتعالیٰ لہ كل منخفض من الارض خفض لہ كل مرتفع حتی تكون الدنیا عندہ بمنزلۃ راحتہ فایكم لو كانت فی راحتہ شعرة لم یبصرھا۔ 2

"جس وقت سلسلہ امور صاحب الامر تك پہونچے گا اس وقت خداوند عالم زمین كی ھر پستی كو ان كے لئے بند كردے گا اور ھر بلندی كو ان كے لئے پست كردے گا۔ یہاں تك كہ ساری دنیا ان كے نزدیك ھاتھ كی ہتھیلی كے مانند ھوجائے گی۔ تم میں سے كون ھے جس كی ہتھیلی میں بال ھو، اور وہ اس كو نہ دیكھ رھا ھو۔"!؟

آج كی ترقی یافتہ دنیا میں بلندیوں پر جدید ترین آلات نصب كركے دنیا كے مختلف گوشوں میں آوازیں اور تصویریں بھیجی جارھی ھیں اور اس سلسلے میں مصنوعی سیاروں سے بھی استفادہ كیا جا رھا ھے۔ لیكن اس كی دوسری صورت آج كی دنیا میں ابھی تك عملی نہیں ھوسكی ھے یعنی مختلف جگہوں سے ایك مركز پر خبروں اور تصویروں كا انعكاس۔ مگر یہ كہ دنیا كے گوشے گوشے میں نشر كرنے والے اسٹیشن قائم كیے جائیں۔

اس حدیث سے ھمیں یہ پتہ چلتا ھے كہ ظھور كے بعد یہ مشكل بھی آسان ھوجائے گی اس وقت دنیا ہاتھ كی ہتھیلی كی مانند ھوجائے گی۔ دنیا كے دور ترین مقامات پر رونما ھونے والے واقعات پر حضرت كی بھرپور نظر ھوگی۔ اس وقت نزدیك و دور كا امتیاز ختم ھوجائے گا۔ دور و نزدیك ھر ایك پر حضرت كی یكساں نگاہ ھوگی۔ ظاھر ھے جی عادلانہ عالمی حكومت كے لیے وسیع ترین اطلاعات كی سخت ضرورت ھے۔ جب تك دنیا كے ھر واقعہ پر بھرپور نظر نہ ھوگی اس وقت تك عدل كا قیام اور ظلم كی فنا كیونكر ممكن ھوگی۔

3) حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا كہ:

ذخر لصاحبكم الصعب!

قلت: وما الصعب؟

قال: ما كان من سحاب فیہ رعد و صاعقۃ او برق فصاحبكم یركبہ اما انہ سیركب السحاب وبرقی فی الاسباب، اسباب السمٰوٰات والارضین! 3

تمھارے امام كے لئے سركش وسیلہ كو ذخیرہ كیا گیا ھے۔

راوی كا بیان ھے كہ میں نے دریافت كیا كہ مولا وہ سركش وسیلہ كیا ھے؟ فرمایا: وہ بادل ھے جس میں گرج چمك یا بجلی پوشیدہ ھے وہ اس بادل پر سوار ھوگا۔ آگاہ ھوجاؤ كہ عنقریب بادلوں پر سوار ھوگا، بلندیوں پر پرواز كرے گا، ساتوں آسمانوں اور زمینوں كا سفر كرے گا۔"

بادل سے یہ عام بادل مراد نہیں ھے۔ یہ تو بخارات كا مجموعہ ھیں۔ یہ اس لائق نہیں ھیں كہ ان كے ذریعہ سفر كیا جا سكے، زمین سے بادلوں كا فاصلہ كوئی زیادہ نہیں ھے بلكہ بادل سے ایك ایسے وسیلہ سفر كی طرف اشارہ ھے جس كی رفتار بے پناہ ھے۔ جس كی آواز گرج، چمك اور بجلی جیسی ھے وہ سفر كے دوران آسمانوں كو چیرتا ھوا نكل جائے گا۔

آج كی دنیا میں ھمارے سامنے كوئی ایسا وسیلہ اور ذریعۂ سفر نہیں ھے جسے مثال كے طور پر پیش كیا جاسكے۔ البتہ صرف "اڑن طشتری" كے ذریعہ اس وسیلہ سفر كا ایك ھلكا سا تصور ذھنوں میں ضرور آسكتا ھے۔

ان حدیثوں سے یہ حقیقت بالكل واضح ھوجاتی ھے كہ حضرت مھدی سلام اللہ علیہ كے ظھور كے بعد صنعت، ٹكنالوجی كس بام عروج پر ھوں گی۔ ان حدیثوں سے یہ بات واضح ھوگئی كہ ظھور كے بعد ترقی ھوگی تنزلی نہیں۔ حضرت جدید ٹكنالوجی كے ذریعہ دنیا میں عدل و انصاف كی حكومت قائم كریں گے۔ لیكن ایك بات جو ذھنوں میں بار بار كھٹكتی ھے وہ یہ ھے كہ كیا حضرت تلوار كے ذریعہ جنگ كریں گے۔؟

اس بات كا جواب یہ ھے كہ روایات میں "سیف" كا لفظ استعمال كیا گیا ھے۔

سیف" یا شمشیر یہ الفاظ جب استعمال كیے جاتے ھیں تو ان سے قدرت و طاقت مراد لی جاتی ھے جس طرح "قلم" سے ثقافت كو تعبیر كیا جاتا ھے۔

روایات میں لفظ "سیف" سے عسكری طاقت مراد ھے

یہ بات بھی واضح ھوجائے ك ھرگز یہ خیال بھی ذھنوں میں نہ آئے كہ حضرت ظھور كے بعد یكبارگی تلوار اٹھالیں گے اور ایك طرف سے لوگوں كے سرقلم كرنا شروع كردیں گے۔

سب سے پہلے دلائل كے ذریعہ حقائق بیان فرمائیں گے۔ افكار كی رھنمائی فرمائیں گے، عقل كو دعوت نظر دیں گے، مذھب كی اصطلاح میں سب سے پہلے "اتمام حجّت" كریں گے۔ جب ان باتوں سے كوئی فائدہ نہ ھوگا اس وقت تلوار اٹھائیں گے۔

پھر تو اك برق تباں جانبِ اشرار چلی

نہ چلی بات تو پھر دھوم سے تلوار چلی

اسلام كو اپنی حقانیت پر اس قدر اعتماد ھے كہ اگر اسلامی تعلیمات واضح طور سے بیان كردی جائیں تو ھر منصف مزاج فوراً تسلیم كرلے گا ھاں صرف ھٹ دھرم اور تعصّب كے اندھے قبول نہ كریں گے اور ان كا تو بس ایك علاج ھے اور وہ ھے تلوار یعنی طاقت كا مظاھرہ۔

حوالہ جات:

 1. بحار الانوار ج52 ص330

2. بحار الانوار ج52 طبع جدید ص328

3.  بحار الانوار ج52 طبع جدید ص 321


متعلقہ تحریریں:

غیبت كے زمانے میں وجود امام كی نامرئی شعاعیں مختلف اثرات ركھتی  ہیں

زمانۂ غیبت میں وجودِ امام كا فائدہ