بعثت سے غدیر تک (حصہ دوّم )
اس حقارت آمیز خاموشی کو دیکھ کر حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ادب کے ساتھ عرض کیا:
”یا نبی اللّٰہ انا وزیرک علیہ قال ما خذ برقبتی فقال ان ھذا اخی و وصیی و خلیفتی فیکم فاسمعوا الہ و اطیعوا فقام القوم یضحکون و یقولون لابیطالب قد امرک و ان تسمع لعلی وتطیع“
اے خدا کے رسول (ص) میں اس امر میں آپ کی پشت پناہی کے لئے پوری طرح تیار ہوں ، راوی کا بیان ہے کہ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کو سینے سے لگایا اور فرمایا کہ یہی میرا بھائی ،میرا وصی اور تم میں میرا خلیفہ ہے پس تم کو چاہئے کہ اس کی باتوں کو بغور سنو اور اس کی اطاعت کرو۔
تفسیر ثعلبی ، تفسیر ابن ابی حاتم ، تفسیر کبیر حافظ ابن جریر ، تفسیر معالم التنزیل محی السنہ بغوی ،تفسیر سراج المنیر خطیب شرینی ،تفسیر لباب التاویل خازن بغدادی ، مغازی ابن اسحاق ، تہذیب الاثار حافظ ابن جریر، دلائل النبوة بیہقی ، تاریخ کامل ابن اثیر جزری، تاریخ ابو الفداء۔
مسٹر کارلائل اپنی کتاب ” ہیروز اینڈ ہیرو ز ور شب“ کے لکچر دوم میں لکھتے ہیں:
” بنی عبد المطلب کے لوگوں کو ایک ادھیڑ امی اور ایک سولہ برس کے لڑکے کا یہ فیصلہ کہ وہ مل کر دنیا کے خلاف کوشش عمل میں لائیں گے ایک مضحکہ خیز بات معلوم ہوئی ، جس پر وہ مجمع قہقہہ لگا کر منتشر ہو گیا ، لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ یہ ہنسی کی بات نہ تھی بلکہ بالکل ٹھیک اور درست تھی ۔ کیوں کہ نوجوان علی (ع) ایسے شخص ضرور تھے کہ جن کو ہر شخص پسند کرے ۔ چنانچہ علی (ع) سے ہمیشہ جو باتیں ظہور میں آئیں ان سے معلوم ہو گیا کہ وہ ایک صاحب اخلاق فاضلہ اور محبت سے بھرے ہوئے ایسے بہادر شخص تھے کہ جن کی تیز و تند جراٴت کے سامنے کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی تھی ان کی طبیعت میں عجیب طور کی جوانمردی تھی ۔ یعنی مثل شیر کے تو بہادر تھے مگر مزاج میں ایسی نرمی ، رحم دلی اور سچائی تھی جو ایک کرسچن نائٹ کے شایان شان ہو سکتی ہے“
مسٹر گبن اپنی کتاب ” ڈکلائین آف رومن امپائر“ میں لکھتے ہیں :
” محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )نے بعثت کے چوتھے برس بالاعلان دعوت رسالت شروع کی اور تصدیق وحدانیت کا نور پھیلانے کی غرض سے بنی ہاشم کے چالیس آدمیوں کو ضیافت پر مدعو کیا ۔ بعد از ان ان کی جانب مخاطب ہو کر کہا کہ اے دوستو!اے عزیزو !میں تم لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت کی نیکیاں لایا ہوں جس کو میرے سوا دوسرا نہیں دے سکتا ۔ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کو اس کی عبادت کی طرف بلاؤں ۔ پس تم میں سے کون شخص اس کام میں میرا رفیق اور وزیر ہوگا۔ اس بات کا کسی نے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ وہ حقارت شک اور تعجب بھری خاموشی علی (ع) کی جراٴت سے دفع ہوئی جو ایک چہاردہ سالہ نوجوان تھے ۔ انھوں نے عرض کیا کہ اے نبی خدا میں ہر طرح اس کام میں آپ کی رفاقت اور نصرت کے لئے حاضر ہوںمیں آپ کے مخالفین کی آنکھیں نکال لوں گا ، ان کے دانت توڑ دوں گا ۔ اے خدا کے نبی !میں آپ کی وزارت کے لئے دل و جان سے حاضر ہوں ۔محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )نے علی (ع) کی التماس کو جوش مسرت کے ساتھ قبول فرمایا اور حاضرین نے ابو طالب (ع) اور ان کے بیٹے کی اس اعلیٰ عزت پانے پر طنزیہ کلمات کہے “
نهج البلاغة ڈاٹ نیٹ
متعلقہ تحریریں:
حضرت عبدللہ کا گہر اور حضرت آمنہ کا فرزند امن و سلامتی کا پیغمبر بہی
بعثت کا دن