بعثت سے غدیر تک
آفتاب رسالت طلوع ہو چکا تھا لیکن ابھی اس کی ہدایت افروز شعائیں غار حرا سے بیت الشرف حضرت ابو طالب(ع) ہی تک ضیا گستر تھیں اور خدا کا رسول (ص) مصالح ایزدی کے مطالبق ہنوز مخفی طور پر دعوت اسلام میں مصروف تھا کہ ناگہاں بر گزیدہ بارگاہ صمدیت کو یہ الہام ہوا۔
” انذر عشیرتک الاقربین واخفض جناحک لمن اتبعک من المومنین “ ( اے رسول (ص) !) آپ اپنے قرابت داروں کو عذاب الٰہی سے ڈرایئے اور جو مومنین آپ کے پیرو ہوں ان سے بتواضع پیش آیئے۔
اس آیہٴ کریمہ کے نزول پر آنحضرت (ص) نے اپنے بھائی حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے سامان ضیافت تیار کرنے کو کہا۔ جناب امیر المومنین علیہ السلام نے حسب الحکم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سامان ضیافت مہیا کرکے فرزندان عبد المطلب کو جو چالیس افراد تھے ،جمع کیا ۔ جب وہ لوگ آسودگی سے شکم سیر ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا:
” یا بنی عبد المطلب انی قد جئکم بخیر الدنیا و الاخرة وقد امرنی اللہ ان ادعوکم الیہ فایکم یواذرنی علیٰ ھٰذا الامر و یکون اخی و وصیی و خلیفتی فیکم عاحجم القوم عنھا جمیعا“
”اے بنی عبد المطلب میں تمھارے پاس دنیا و آخرت کی نیکی لایا ہوں اور خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی طرف بلاؤں ۔ پس تم میں کون ایسا ہے جو اس بات میں میری مدد کرے اور کار تبلیغ میں میرا بھائی ،میرا وصی ، اور میرا خلیفہ ہو؟۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ کلام سن کر کسی نے کچھ جواب نہ دیا۔
تفسیر ثعلبی ۔ مغازی ابن اسحاق، تفسیر ابن ابی حاتم۔ تفسیر کبیر ، حافظ ابن جریر ۔ تہذیب الاناء حافظ ابن جریر ،تفسیر معالم التنزیل ،محی السنہ بغوی ۔
تفسیر سراج ، المنیر خطیب شرینی۔ تفسیر اب التاویل خازن بغدادی ۔ دلائل النبوة بیہقی۔ تاریخ کامل ابن اثیر ۔تاریخ ابوالفدا ء ۔
نهج البلاغة ڈاٹ نیٹ
متعلقہ تحریریں:
حضرت عبدللہ کا گہر اور حضرت آمنہ کا فرزند امن و سلامتی کا پیغمبر بہی
بعثت کا دن