ہمارے معاشرے میں جہیز ایک المیہ (حصّہ دوّم)
بات دراصل یہ ہے کہ میرے وہ شریف النفس دوست کے پاس انہیں دینے کےلئے وہ مال و جواہر نہیں ہیں جن کا عکس انہوں نے لڑکے کے نیک والدین کی آنکھوں میں حرص بن کر چمکتے ہوئے دیکھا اور محسوس کیا تھا-
گویا پیسے کی کمی اسکی خوبصورت،سلیقہ شعار ،تعلیم یافتہ بیٹی کا رشتہ نہ ہونے کا باعث بن گئی ۔
ہم بطور مسلمان اٹھتے بیٹھتے” اسلام یہ کہتا ہے اسلام وہ کہتا ہے“
دہراتے نہیں تھکتے ہر معاملے میں اسلام کے بارے میں زبانی جمع خرچ ہماری عادت بن چکی ہے لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو کچھ نہیں کرتے ہم صرف اپنے مفادات اور پسند نہ پسند ہی کو عزیز جانتے ہیں لیکن اسلامی ملک میں اور بحثیت مسلمان جب ہم جہیز کی لمبی چوڑی فہرست تیار کر کے لڑکی کا رشتہ دیکھنے جاتے ہیں تو ہمارا ضمیر کہاں سویا ہوتا ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ دیگر کئی معاملات کی طرح جہیز لینے کے معاملے میں بھی ہم بے ضمیر ہو چکے ہیں اور شریف لٹیرے بن کے لڑکی بھی اپنے گھر میں لے آتے ہیں اور اس کے ساتھ جہیز کے نام پر سازوسامان بھی اور اگر ہماری منشاء کے مطابق لڑکی جہیز نہ لائے تو اس کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں بلکہ اسے زندہ آگ میں جلا ڈالتے ہیں ۔
اس جرم اس گناہ پر نہ تو ہماری بدنامی ہوتی ہے اور نہ ہی ہمیں قانون و معاشرہ کوئی سزا دیتا ہے۔ ہم بیٹوں کا کاروبار کر رہے ہیں اور دھڑلے سے کر رہے ہیں کوئی ہمیں پوچھنے والا نہیں اور ان بے بس لڑکیوں کےلئے جو جہیز نہ ہونے کے باعث ادھوری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں رحم و ہمدردی کا ضفیف سا جذبہ بھی ہمارے دلوں میں موجزن نہیں ہے۔
مال و زر کی ہوس نے تو لوگوں کے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت بنا ڈالے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جہیز کی لعنت ختم کرنے کےلئے باقاعدہ سیمینار منعقد کروائے جائیں نیز میڈیا بھی جہیز کےخلاف منظم مہم چلاۓ تاکہ نوجوان لڑکوں میں بالخصوص اور معاشرے میںاجتماعی طور پر جہیز کے خلاف ردعمل بیدار ہو جہیز کی لعنت سمیت تمام ایسی رسومات جو غریبوں کےلئے باعث عذاب کا باعث ہیں سے ترک تعلق ہم پر فرض بھی ہے اور معاشرے کی ضرورت بھی۔
پاک ڈاٹ نیٹ
متعلقہ تحریریں:
اسلام میں طلاق (حصّہ اوّل )
اسلام میں طلاق (حصّہ دوّم )
اسلام میں طلاق (حصّہ سوّم )
اسلام میں طلاق (حصّہ چہارم )
اسلام میں طلاق (حصّہ پنجم )