اسلام میں طلاق (حصّہ پنجم )
اسلام نے جس طرح مرد کے تنفر کی طرف تو جہ دی ھے عورت کے تنفر کو بھی پیش نظر رکھا ھے اسی لئے اگر عورت شوھر سے نفرت کرتی ھے اور اپنے کو کسی بھی طرح مشترک زندگی بسر کرنے پر آمادہ نھیں کر سکتی تو شوھر کو مھر بخش کر یا کچہ دے کر طلاق پر آمادہ کر سکتی ھے ۔ قرآن میں ھے ” جو مال تم نے اپنی بیویوں کو دیا ھے اس کو واپس لینا تمھارے لئے جائز نھیں ھے مگر یہ کہ حدود الٰھی کی برقرا ری سے خوف زدہ ھو ( اور نکاح کو باقی نہ رکہ سکتے ھو ) ایسی صورت میں اس مال سے کچہ لے سکتے ھو اور طلاق دے سکتے ھو ۔
اس سے پتہ چلا کہ اسلام نے عورتوں کے احساسات کا بھی خاص خیال رکھا ھے اور اس کے لئے بھی تکلیف دہ زندگی سے چھٹکارا پانے کا راستہ کھول رکھا ھے جیسا کہ رسول خدا کے زمانے میں ایک واقعہ ایسا پیش آیا تھا ۔
ابن عباس کھتے ھیں کہ ایک دن ” ثابت بن قیس “ کی بیوی ” جمیلہ “ پریشاں حال پیغمبر (ص) کی خدمت میں آئی اور عرض کرنے لگی خدا کے رسول اب میں ایک منٹ بھی ” ثابت “ کے ساتہ زندگی نھیں بسر کر سکتی اور کسی قیمت پر ھم دونوں کا سر ایک تکئیے پر اکٹھا نھیں ھو سکتا اور اس میں اضافہ کرتے ھوئے کھنے لگی کہ میری جدائی و طلاق کی خواھش ” ثابت بن قیس “ کے ایمان یا اخلاق یا کیفیت معاشرت کی کمی کی بناء پر نھیں ھے لیکن مجھے ڈر ھے کہ اگر میں طلاق نہ لوں تو کھیں کفر و بے دینی کی طرف مائل نہ ھوں ۔ میری نفرت کی وجہ یہ ھے کہ میں نے اتفاقاً خیمے کا پردہ اٹھایا تو کیا دیکھتی ھوں کہ ثابت چند لوگوں کے ساتہ آرھے ھیں اور وہ سب میں سب سے زیادہ کالے ، بد صورت ، پستہ قد ھیں ۔ یہ دیکہ کر مجھے کر اھت محسوس ھونے لگی اورمیرے دل میں نفرت پیدا ھو گئی اب میں کسی قیمت پر ان کے ساتہ زندگی نھیں بسر کر سکتی ، پیغمبر (ص) نے اس کو بھت پند و نصیحت فرمائی مگر اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا ۔ اس وقت آپ نے ثابت کو بلا کر پورا قصہ سنایا ۔ ثابت جمیلہ کو ضرورت سے زیادہ چاھنے کے باوجود اس تکلیف دہ بات پر تیار ھو گئے اور مھر میں جو باغ جمیلہ کو دیا ھے اس کو واپس لے کر طلاق دے دی ۔ مختصر یہ کہ اس طرح جمیلہ نے اپنے شوھر ثابت بن قیس سے طلاق خلعی حاصل کر لی ۔
اسلام میں بعض ایسے موارد بھی ھیں کہ جھاں پر مرد کو طلاق دینے کی ضرورت نھیں ھوتی ھے بلکہ خود عورت کو یہ حق ھوتا ھے کہ وہ عقد نکاح باطل قرار دیدے کچہ مقامات پر عدالت اسلامی کی طرف رجوع کرنے کے بعد عقد نکاح باطل کرنے کا حق حاصل ھوتا ھے اور ایسے بھی مقامات ھیں جھاں عدالت شرعیہ کی طرف مراجعہ کئے بغیر بھی طلاق ھو سکتی ھے مثلا اگر عورت یا مرد دیوانہ ھو جائیں تو دوسرے کونکاح فسخ کر دینے کا حق ھے ۔
( جرمنی و سوئز ر لینڈ جیسے مغربی ممالک میں بھی دیوانہ ھونا عقد نکاح کے ختم کرنے کا سبب ھے لیکن بعض دوسرے یوروپی ممالک میں جیسے فرانس کے اندر شوھر یا بیوی کا پاگل ھوجانا سبب طلاق نھیں ھے بلکہ اس پر لازم ھے کہ اپنے پاگل جیون ساتھی کو قبول کرے اور اسکے ساتہ زندگی بسر کرے ۔ ظاھر ھے کہ یہ ایک جبری قسم کا حکم ھے لیکن اسلام نے ایسی صورت میں یہ حق دیا ھے کہ اگر جی چاھے تو پاگل کے ساتہ زندگی بسر کرے اور نھیں جی چاھتا تو عقد کو فسخ کر کے اپنے کو آزاد کر لے )
اسی طرح مرد کا خصی ھونا یا عنین ھونا بھی عورت کے لئے حق فسخ کو ثابت کرتا ھے ۔ اسی طرح جبر و اکراہ بھی نکاح کے فسخ ھونے کا سبب ھے ۔ دوسرے اور بھی مواقع ھیں جھاں پر بعض فقھاء نے حق فسخ کو مانا ھے ۔
جاری ہے
متعلقہ تحریریں:
اسلام میں طلاق (حصّہ اوّل )