• صارفین کی تعداد :
  • 4754
  • 3/31/2009
  • تاريخ :

اسلام میں طلاق (حصّہ سوّم )

طلاق

در حقیقت نفرت و کراھت کے شعلوں کو خاموش کرنے اور ناراضگی کو دور کرنے کے لئے نیزمردوں کے وجدان کو بیدار کرنے کے لئے اسلام مردوں کو اس امر مکروہ پر صبر و شکیبائی کی تلقین کرتا ھے کہ جن عورتوں کو ناپسند کرتے ھیں ان کو چھوڑ نہ دیں ۔ کیونکہ بھت ممکن ھے کہ ان عورتوں کے وجود ھی میں خیر و برکت ھو اور لوگ اس سے غافل ھوں اور انھیں عورتوں کو ناپسند کرنے کے باوجود جدا نہ کرنے سے خیر و برکت کے دروازے کھلتے ھوں اور دوسری طرف عورتوں کو مخاطب کرکے قرآن سفارش کرتا ھے کہ ” اگر کوئی عورت شوھر سے حقوق ادا نہ کرنے یا اسکی کنارہ کشی سے طلاق کا خطرہ محسوس کرے تودونوں کے لئے کوئی حرج نھیں ھے کہ کسی طرح آپس میں صلح کر لیں کہ صلح میں بھتری ھے ۔ ،،

پیشوایان اسلام نے بھی طلاق کو نھایت ناپسندیدہ فعل قرار دیا ھے اور مختلف بیانات اس کی مذمت کی ھے چنانچہ معصوم علیہ السلام کا ارشاد ھے : جو عورت بغیر کسی اھم ضرورت کے اپنے شوھر سے طلاق مانگے تو خدا اس کو اپنی رحمت و عنایت سے محروم کر دے گا ۔

دوسری جگہ ارشاد ھے :

,,شادی کرو مگر طلاق نہ دو کیونکہ طلاق عرش الٰھی کو ھلا دیتی ھے ۔،،

 اسلام نے مردوں کو حق طلاق تو ضرور دیا ھے مگر اس اختیار سے غلط فائدہ حاصل کرنے پر پابندی لگا دی ھے اور اختیارات کو بھی مخصوص دائرے میں محدود کر دیا ھے ( مثلا ) مرد ظلم و ایذا کی نیت سے عورت کو طلاق نھیں دے سکتا ۔ اسی طرح اگر طلاق سے مفاسد و خطرات کا یقین ھو تو طلاق کی اجازت نھیں ھے ۔ اسلام نے جو شرائط و قیود طلاق کے لئے معین کر دئے ھیں وہ طلاق کی قلّت کے اھم اسباب ھیں ۔

 

 عورت و مرد کے اختلاف کو دور کرنے کے لئے سب سے پھلا قدم گھریلو عدالت ھے اور یہ چیز اسلام کے ابتکارات میں سے ھے ۔ ابھی تک مغربی ممالک میں اس قسم کا کوئی موثر حربہ کشیدگی دور کرنے اور زن و شوھر میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے ایجاد نھیں ھوا ھے ۔ اس گھریلو عدالت کا مطلب یہ ھے کہ عورت و مرد دونوں کی طرف سے ایک ایک ایسا آدمی منتخب کیا جائے جس میں حاکمیت کے سارے شرائط موجود ھوں پھر یہ دونوں مل بیٹہ کر تمام حالات پر غور و فکرکر کے ایک ایسا فیصلہ دیں جو دونوں کے لئے قابل قبول ھو ۔ چنانچہ قرآن کھتا ھے :

,, اگر ان کے اختلاف سے ڈرتے ھو تو ایک شخص مرد کی طرف سے حکم بنے اور ایک عورت کا قریبی رشتے دار حکم بنے ۔ اگر یہ لوگ صلح کرنا چاھتے ھوں ۔ خدا ان کے درمیان صلح قرار دے گا وہ حکیم و دانا ھے ۔،،

 لیکن اگر اسباب طلاق بھت گھرے ھوں اور اصلاح کی کوئی صورت ممکن نہ ھو تو پھر دونوں اپنا اپنا راستہ الگ کر لیں ۔ لیکن عمومی عدالتوں کا ان مسائل میں دخیل ھونا بھت مضر ھے کیونکہ یہ بات تجربے میں آ چکی ھے کہ عمومی عدالتوں کے دخل دینے سے میاں بیوی کے حالات اور زیادہ خراب ھو جاتے ھیں کیونکہ عمومی عدالتوں کا فریضہ ھے کہ وہ خشک اور نا قابل جھکاؤ قانون کے ماتحت طرفین کی دلیلوں کو سن کر فیصلہ کریں ۔ اب جس کے دلائل مضبوط ھوں گے اس کے حق میں فیصلہ ھو جائے گا وہ لوگ آتش اختلاف کو بجھانے کی کوشش نھیں کرینگے اور نہ اختلاف کے اسباب دور کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اس کے علاوہ ایک بڑی خرابی اور بھی ھے کہ طرفین خالص گھریلو باتوں کو اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے بیگانہ افراد کے سامنے پیش کریں گے جس سے مرد و عورت کے احساس مجروح ھوتے ھیں ان کی شخصیتیں متاثر ھو جاتی ھیں اور پھر اختلاف کم ھونے کے بجائے بڑھ جاتا ھے ۔

 طلاق کے شرائط میں ایک شرط یہ بھی ھے کہ دو عادل افرادکے سامنے صیغہ طلاق جاری کیا جائے ۔اس سلسلے میں قرآن فرماتا ھے: طلاق پر دو عادل مسلمانوں کو گواہ بناؤ ۔

اب اگر دو عادل شخصیتوں کے بغیرصیغہ طلاق جاری کیا گیا تو طلاق باطل ھے ۔ طلاق میں دو عادل افراد کی شرط کا فائدہ یہ ھے کہ جب ان کے سامنے مسئلہ آئے گا تو وہ اپنی عدالت کی وجہ سے اس بات پر مجبور ھیں کہ کوشش کر کے میاں بیوی میں اختلاف کو ختم کرا دیں ۔ اور حتی الامکان طلاق نہ ھونے دیں لیکن طلاق کے بعد اگر شوھر رجوع کرنا چاھے تو پھر رجوع کے لئے کوئی شرط نھیں ھے یھاں معاملہ طلاق کے بالکل بر عکس ھے کیونکہ اسلام کا نظریہ یہ ھے کہ اتحاد و اتفاق اور رشتہٴ ازدواج کی بقاء میں کسی قسم کی تاخیر نہ ھونی چاھئے ، اختلاف و جدائی کوختم کرنے اور الفت و محبت کو بحال کرنے کے لئے اسلام نے مختلف سھولتیں مھیا کی ھیں ۔

 اس کے علاوہ ھر وقت دو عادل افرادکا ملنا بھی ممکن نھیں ھے اس لئے حتی الامکان طلاق میں کمی ھو گی کیونکہ جب تک دو عادل افرادکی تحقیق نہ ھوجائے مرد چاھنے کے بعد بھی طلاق نھیں دے سکتا اسی طرح طلاق کے لئے عورت کا حیض و نفاس سے پاک ھونا بھی شرط ھے ۔ بھت سے ایسے مقامات آتے ھیں کہ مرد طلاق دینے پر آمادہ ھے لیکن عورت کی ناپاکی اس ارادے میں حائل ھو جاتی ھے اور وہ ایک مدت کے لئے ٹل جاتا ھے بھت ممکن ھے کہ اتنے دنوں میں حالات بدل جائیں اور مرد اپنے ارادے سے باز آ جائے ۔

                                                                                         جاری ہے