السلام عليک يا علي بن موسي الرضا
ماہ صفرالمظفر کا آخري دن پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم خاندان کی ایک اور عظیم الشان ہستی فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں جہاں جہاں بھی اہل بیت علیہم السلام کے دوست قرار پائے جاتے ہیں غمگین و سوگوار ہیں ۔ آج کے دن خاص طور پر ایران کے مقدس شہر مشہد امام رضا علیہ السلام میں حضرت کے حرم اطہر کی پوری فضا سیاہ پوش اور لاکھوں کی تعداد میں اہلبیت علیہ السلام کے عاشقین حرم اطہر کی ملکوتی فضاؤں میں دعاؤ مناجات کے لطیف و دلنشین زمزموں کے ساتھ قرآن حکیم کی تلاوت ، زیارت اور نوحہ و عزاداری میں مشغول ہیں ۔ زائرین امام رضا ، خلوص و پاکیزگی سے معمور قلوب کے ساتھ اس مکان مقدس میں جمع ہوئے ہیں اور دنیا ؤ آخرت کی سعادت و کامرانی کے خواستگار ہیں ۔ دنیا کے مختلف ملکوں سے آنے والے زائرین اپنے امام و رہنما کے یوم شہادت پر فرزند رسول کے روضۂ مبارک پر جمع ہوکر اپنے خدائے مہربان سے عہدو پیمان کرتے ہیں کہ اپنی زندگیاں ویسے ہی گزاریں گے جو خدا و رسول اور اہلبیت علیہم السلام کو پسند ہے ، جس راہ کی انہوں نے تعلیم دی ہے اور جس راہ پر انہوں نے اپنی زندگی بسر کی ہے ۔ تا کہ دنیا و آخرت میں رستگار ہوسکیں ۔
دور امام
امام رضا علیہ السّلام کا دور عباسیوں کے حکومت و اقتدار اور ترقی و فروغ کا دور ہے اس دور کو " سنہرا دور" کہاگیاہے اور اسلامی قلمرو حکومت ایشیا سے گزر کر یورپ اور افریقہ تک پہنچ چکی تھی ہارون کہاکرتا تھا کہ " میرے قلمرو حکومت میں سورج غروب نہیں کرتا " اور ابر سے خطاب کرتے ہوئے کہتاتھا " تو جہاں بھی برسے گا وہاں میراہی ملک اور میری ہی قوت و اقتدار کا مرکز ملے گا ۔ " امام رضا علیہ السلام کے ساتھ مامون اور اس کے درباری علماء کی علمی سیاسی اور مذہبی نشستیں اور مناظرے جو اس زمانے کی تاریخی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں اس زمانے میں علمی و فلسفی فروغ کے گواہ ہیں ۔ یونانی کتابوں کے کثرت کے ساتھ عربی اور فارسی زبانوں میں ترجمے ہوئے ۔ اٹھویں امام علی رضا علیہ السلام کو " عالم آل محمّد " کے عنوان سے پہچانا جاتاہے کیونکہ آپ نے ولایت اور نبوت و امامت کی مانند اسلام و تشیع کی بنیادی بحثیں ، درباری علماء کے درمیان علی الاعلان چھیڑیں اور بیان کی ہیں اور لوگوں کے شکوک و شبہات برطرف کئے ہیں ۔
امام رضا علیہ السّلام علم و معرفت کا ایک جوش مارتا ہوا سمندر تھے جس سے تشنگان حقیقت سیراب ہوتے اور جہل و نادانی کے مرگ بار وجود سے نجات حاصل کرتے تھے فکری و اعتقادی مباحث میں امام رضا علیہ السلام نے بڑا قیمتی کردار ادا کیاہے یہ زمانہ علمی و ثقافتی سرگرمیوں کے لحاظ سے ایک آزاد فضا کا حامی تھا اور لوگ اپنے عقائد و نظریات بیان کرنے میں بالکل بے باک تھے لہذا اس وقت اسلامی حقائق و معارف سے آشنا مسلمان دانشوروں کی ذمہ داریاں بہت بڑھی ہوئی تھیں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وارث ، اہلبیت علیہ السلام کی نمایان ترین فرد اور ملت اسلامیہ کے پیشوا کی حیثیت سے امام رضا علیہ السلام نے اس وقت قرآنی معارف کے تحفظ میں نمایاں کردار ادا کیا چنانچہ آپ کے مشہور صحابی " ابا صلت " جن کا مشہد مقدس میں ہی مزار ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کی زبانی سناہے وہ فرماتے تھے : " میں مسجد مدینہ میں بیٹھ جاتاتھا علمائے مدینہ جن کی تعداد اس وقت بہت زیادہ تھی ، جب کسی مسئلے کے بیان سے عاجز ہوتے ، سب کے سب میری طرف اشارہ کرتے تھے ، سوال کرنے والا میرے سامنے مسئلہ بیان کرتا اور میں اس کا جواب پیش کردیتاتھا ۔ امام رضا علیہ السلام اسلامی علوم کی تعلیم کے ساتھ علماء کی تشویق اور حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے ، کہتے تھے " جو شخص ہمارے امر کو زندہ کرتاہے خداوند سبحان کی رحمت اس کے شامل حال ہے " ہمارے امر کو زندہ کرنے کا مطلب یہ ہے کی ہم اہلبیت پیغمبر کے علوم کی تعلیم دے اور لوگوں میں پھیلائے ۔ اگر لوگ ہمارے علوم سیکھیں گے اور ہماری پیروی کرین گے تو علم عمل کے ساتھ ہوگا کیونکہ ہم خاندان نبوت کا علم وہ علم ہے جو عمل کے ساتھ ساتھ ہے ۔ ایک دن مامون کے دربار میں تمام امراء ، علماء اور مختلف ملکوں کے نمائندے و غیرہ موجود تھے اس نے امام رضا علیہ السلام کو بھی دربار میں آنے کی دعوت دی اور اپنی تقریر میں اہلبیت پیغمبر علیہ السلام کی عظمت و حقانیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا " یہ لوگ خلافت کے زیادہ مستحق ہیں اور پھر امام رضا علیہ السلام کی طرف رخ کرکے کہا : میں چاہتاہوں کہ خلافت سے دست بردار ہوجاؤں اور آپ کو خلافت سونپ کر آپ کی بیعت کرلوں " ۔ امام رضا علیہ السلام نے ، جو عباسی حکمرانوں کے فریب اور ہتھکنڈوں سے اچھی طرح واقف تھے جواب میں فرمایا :
" اگر یہ خلافت تیرا حق ہے اور خدا نے تیرے لئے قرار دی ہے تو جائز نہیں ہے کہ وہ لباس جو خدا نے تجھے پہنایاہے اتارکر کسی اور کے حوالے کردے اور اگر خلافت تیرا حق نہیں ہے تو جائز نہیں ہے کہ جو چیز تیری نہیں ہے میرے حوالے کرے "
امام رضا علیہ السلام اپنی تمام تر حق بیانی اور جرات اظہار کے باوجود عطوفت و محبت اور تواضع و انکساری کا پیکر تھے ، مامون کے مجبور کرنے پر آپ نے " ولیعہدی" قبول کرنے کے باوجود تاکید کے ساتھ یہ بات واضح کردی کہ میں تیرے کسی عمل کا ذمہ دار نہیں ہوں اور تیرے کسی امر میں کبھی مداخلت نہیں کروں گا ۔ گویا مامون کو اس بات کا موقع ہی نہیں دیا کہ وہ اپنے عمل و کردار کے لئے امام رضا علیہ السلام کی تائید اور پشتپناہی حاصل کرسکے ۔ البتہ امام رضا علیہ السلام کی دربار میں موجودگی کے سبب دربار اور اس سے وابستہ دشمنان اہل بیت علیہ السلام کی سازشوں سے کسی حد تک مسلمانوں کو امن و امان حاصل ہوگیا ۔ لیکن مامون درباری فضا کا یہ "بوجہل پن " زیادہ دن برداشت نہ کرسکا اور بالآخر ایک بڑی سازش کے تحت زہر میں بجھا انگور کھلاکر عباسی حکمران مامون نے امام رضا علیہ السلام کے وجود سے خود کو آزاد کرلیا ۔