آنحضرت (ص) کی وصیت واحتضار اور وفات
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آخری وقت آپ نے فرمایامیرے حبیب کوبلاؤ میں نے اپنے باپ ابوبکرپھرعمرکوبلایا انہوں نے پھریہی فرمایاتومیں نے علی کوبلا بھیجا آپ نے علی کوچادرمیں لے لیااورآخر تک سینے سے لپٹائے رہے (ریاض النضرہ ص ۱۸۰ مؤرخین لکھتے ہیں کہ جناب سیدہ اورحسنین کوطلب فرمایا اورحضرت علی کوبلاکروصیت کی اکرہاجیش اسامہ کے لیے میں نے فلاں یہودی سے قرض لیاتھا اسے اداکردینا اوراے علی تمہیں میرے بعدسخت صدمات پہنچیں گے تم صبرکرنا اوردیکھوجب اہل دنیادنیاپرستی کریں توتم دین اختیارکئے رہنا(روضہ الاحباب جلد ۱ ص ۵۵۹ ،مدارج النبوہ جلد ۲ ص ۱۱۵ ، تاریخ بغداد ج ۱ ص ۲۱۹) ۔
رسول کریم (ص)کی شہادت
حضرت علی علیہ السلام سے وصیت فرمانے کے بعد آپ کی حالت متغیر ہوگئی حضرت فاطمہ جن کے زانو پرسرمبارک رسال مآب تھا فرماتی ہیں کہ ہم لوگ انتہائی پریشانی میں تھے کہ ناگاہ ایک شخص نے اذن حضوری چاہا میں نے داخلہ سے منع کردیا، اورکہااے شخص یہ وقت ملاقات نہیں ہے اس وقت واپس چلاجا اس نے کہامیری واپسی ناممکن ہے مجھے اجازت دیجئے کہ میں حاضرہوجاؤں آنحضرت کوجوقدرے افاقہ ہواتو آپ نے فرمایااے فاطمہ اجازت دے دو یہ ملک الموت ہیں فاطمہ نے اجازت دیدی اوروہ داخل خانہ ہوئے پیغمرکی خدمت میں پہنچ کرعرض کی مولایہ پہلادروازہ ہے جس پرمیں نے اجازت مانگی ہے اوراب آپ کے بعدکسی کے دروازے پراجازت طلب نہ کروں گا (عجائب القصص علامہ عبدالواحد ص ۲۸۲ ،روضہ الصفا جلد ۲ ص ۲۱۶ ، انوارالقلوب ص ۱۸۸) ۔
الغرض ملک الموت نے اپناکام شروع کیااورحضوررسول کریم نے بتاریخ ۲۸/ صفر ۱۱ ء ہجری یوم دوشنبہ بوقت دوپہرظاہری خلعت حیات اتاردیا(مودہ القربی ص ۴۹ م ۱۴ طبع بمبئی ۳۱۰ ہجری اہلبیت کرام میں رونے کاکہرام مچ گیاحضرت ابوبکراس وقت اپنے گھرمحلہ سخ گئے ہوئے تھے جومدینہ سے ایک میل کے فاصلہ پرتھا حضرت عمرنے واقعہ وفات کونشرہونے سے روکااورجب حضرت ابوبکرآگئے تودونوں سقیفہ بنی ساعدہ چلے گئے جومدینہ سے تین میل کے فاصلہ پرتھا اورباطل پرمشوروں کے لیے بنایاگیاتھا (غیاث اللغات) اورانہیں کے ساتھ ابوعبیدہ بھی چلے گئے جوغسال تھے غرض کہ اکثرصحابہ رسول خداکی لاش چھوڑ کر ہنگامہ خلافت میں جاشریک ہوئے اورحضرت علی نے غسل وکفن کابندوبست کیاحضرت علی غسل دینے میں ،فضل ابن عباس حضرت کاپیراہن اونچاکرنے میں، عباس اورقثم کروٹ بدلوانے میں اوراسامہ وشقران پانی ڈالنے میں مصروف ہوگئے اورانہیںچھ آدمیوں نے نمازجنازہ پڑھی اوراسی حجرہ میں آپ کے جسم اطہرکودفن کردیاگیا جہاں آپ نے وفات پائی تھی ابوطلحہ نے قبرکھودی ۔
حضرت ابوبکروحضرت عمرآپ کے غسل وکفن اورنمازمیں شریک نہ ہوسکے کیونکہ جب یہ حضرات سقیفہ سے واپس آئے توآنحضرت کی لاش مطہر سپردخاک کی جاچکی تھی (کنزالعمال جلد ۳ ص ۱۴۰ ،ارجح المطالب ص ۶۷۰ ، المرتضی ص ۳۹ ، فتح الباری جلد ۶ ص ۴) ۔
وفات کے وقت آپ کی عمر ۶۳ سال کی تھی (تاریخ ابوالفداء جلد ۱ ص ۱۵۲) ۔