• صارفین کی تعداد :
  • 4179
  • 1/19/2017
  • تاريخ :

پیارے نبی ص کے اخلاق ( حصّہ پنجم)

 

محمد (ص)

 

پیغمبر اسلامۖ کی عوام دوستی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔ لوگوں کے درمیان ہمیشہ بشاش رہتے تھے۔ جب تنہا ہوتے تھے تو آپ کا حزن و ملال ظاہر ہوتا تھا۔ آپ اپنے حزن و ملال کو لوگوں کے سامنے اپنے روئے انور پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ ہمیشہ چہرے پر شادابی رہتی تھی۔ سب کو سلام کرتے تھے۔ اگر کوئی آپ کو تکلیف پہنچاتا تھا تو چہرے پر آزردہ خاطر ہونے کے آثار ظاہر ہوتے تھے لیکن زبان پر حرف شکوہ نہیں آتا تھا۔ آپ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ آپ کے سامنے کسی کو گالیاں دی جائیں اور برا بھلا کہا جائے۔ بچوں سے محبت کرتے تھے، خواتین سے مہربانی سے پیش آتے تھے، کمزوروں سے بہت اچھا سلوک کرتے تھے، اپنے اصحاب کے ساتھ ہنسی مذاق فرماتے تھے اور ان کے ساتھ گھوڑسواری کے مقابلے میں حصہ لیتے تھے۔

پیغمبر اسلامۖ کا کھانا اور لباس آپ کا بستر چٹائی کا تھا، تکیہ چمڑے کا تھا جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے۔ آپ کا کھانا زیادہ تر جو کی روٹی اور کھجور ہوتی تھی۔ لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی بھی تین دن تک مسلسل گیہوں کی روٹی یا رنگا رنگ کھانے نوش نہیں فرمائے۔ ام المومنین (حضرت) عائشہ کہتی ہیں کہ بعض اوقات ایک مہینے تک ہمارے باورچی خانے سے دھواں نہیں اٹھتا تھا۔ ( یعنی چولھا نہیں جلتا تھا) آپ کی سواری بغیر زین اور پالان کے ہوتی تھی۔ جس زمانے میں لوگ قیمتی گھوڑوں پر (بہترین) زین اور پالان کے ساتھ بیٹھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے، آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر جگہوں پر گدھے پر بیٹھ کے جاتے تھے۔ انکسار سے کام لیتے تھے۔ نعلین مبارک خود سیتے تھے۔

پیغمبر اسلامۖ کی عبادت آپ کی عبادت ایسی تھی کہ محراب عبادت میں کھڑے رہنے کے سبب پائے مبارک میں ورم آ جاتا تھا۔ رات کا بڑا حصہ، شب بیداری، عبادت، گریہ و زاری، استغفار اور دعا میں گزارتے تھے۔ خداوند عالم سے راز و نیاز اور استغفار فرماتے تھے۔ رمضان کے علاوہ شعبان اور رجب میں بھی روزہ رکھتے تھے اور بقیہ ایام میں، اور وہ بھی گرمی کے موسم میں، ایک دن چھوڑ کے روزہ رکھتے تھے۔ اصحاب آپ سے کہتے تھے : یا رسول اللہ آپ سے تو کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا ہے" غفر اللہ لک ما تقدم من ذنبک وما تاخّر " سورہ فتح میں بھی آیا ہے :"لیغفرلک اللہ ما تقدم ذنبک و ما تاخّر" تو اتنی دعا، عبادت اور استغفار کس لئے؟ فرماتے تھے: "افلا اکون عبدا شکورا" کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ رہوں جس نے مجھے اتنی نعمتیں عطا کی ہیں؟ ( جاری ہے )