• صارفین کی تعداد :
  • 4226
  • 1/18/2017
  • تاريخ :

پیارے نبی ص کے اخلاق ( حصّہ سوّم)

 

محمد (ص)

 

پیغمبر اکرمۖ کی بردباری زمانہ جاہلیت میں مکہ والوں کے درمیان بہت سے معاہدے تھے۔ ان کے علاوہ ایک معاہدہ، "معاہدہ حلف الفضول" کے نام سے بھی تھا جس میں پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شریک تھے۔ کوئی اجنبی مکہ آیا اور اس نے اپنا سامان بیچا۔ جس نے اس کا سامان خریدا، اس کا نام " عاص بن وائل" تھا جو ایک بدمعاش تھا اور مکہ کے سرمایہ داروں میں شمار ہوتا تھا۔ اس نے جو سامان خریدا اس کا پیسہ نہیں دیا۔ وہ اجنبی جس کے پاس بھی گیا، کوئی اس کی مدد نہ کر سکا۔ آخر کار وہ کوہ ابوقیس کے اوپر گیا اور وہاں سے فریاد کی: اے فہر کے بیٹو! میرے اوپر ظلم ہوا ہے۔" یہ فریاد رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے چچا زبیر بن عبدالمطلب نے سنی۔ انہوں نے لوگوں کو جمع کیا اور اس شخص کے حق کا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اٹھے اورعاص بن وائل کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس کے پیسے دو؛ وہ ڈر گیا اور مجبور ہوکے اس کے پیسے دے دیئے۔ یہ معاہدہ ان کے درمیان باقی رہا اور اس میں طے پایا تھا کہ جو اجنبی بھی مکہ میں داخل ہو اگر اہل مکہ اس پر ظلم کریں، عام طور پر اجنبیوں اور مکہ سے باہر والوں پر ظلم کرتے تھے، تو یہ لوگ اس کا دفاع کریں گے۔ اسلام آنے کے برسوں بعد بھی رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ " میں اب بھی خود کو اس معاہدے کا پابند سمجھتا ہوں۔" بارہا آپ نے اپنے مغلوب دشمنوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جو ان کے لئے قابل فہم نہیں تھا۔ آٹھویں ہجری میں جب پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اتنی عظمت و شکوہ کے ساتھ مکہ کو فتح کیا تو فرمایا" الیوم یوم المرحمۃ" آج عفو و درگذر سے کام لینے کا دن ہے لہذا انتقام نہ لو۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فراخدلی تھی۔

رسول اسلامۖ کی راست بازی رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) راست باز تھے۔ زمانہ جاہلیت میں، آپ تجارت کرتے تھے؛ شام اور یمن جاتےتھے۔ تجارتی کاروانوں میں شامل ہوتے تھے اور آپ کے تجارتی حلیف تھے۔ زمانہ جاہلیت میں آپ کے تجارتی حلیفوں میں سے ایک بعد میں کہتا تھا کہ آپ بہترین حلیف تھے، نہ ضد کرتے تھے، نہ بحث کرتے تھے، نہ اپنا بوجھ حلیف کے کندھوں پر ڈالتے تھے، نہ خریدار کے ساتھ بد سلوکی کرتے تھے، نہ مہنگا بیچتے تھے اور نہ ہی جھوٹ بولتے تھے، راست باز تھے۔ یہ آنحضرت کی راست بازی ہی تھی کہ جس نے جناب خدیجہ کو آپ کا شیدائی بنایا۔ خود جناب خدیجہ مکہ کی خاتون اول ( ملیکۃ العرب) اور حسب و نسب اور دولت و ثروت کے لحاظ سے بہت ہی ممتاز شخصیت تھیں۔ ( جاری ہے )