• صارفین کی تعداد :
  • 4111
  • 1/17/2017
  • تاريخ :

پیارے نبی ص کے اخلاق ( حصّہ دوّم)

محمد (ص)

 

پیغمبر اسلامۖ کی بردباری آپ کے اندر تحمل اور بردباری اتنی زیادہ تھی کہ جن باتوں کو سن کے دوسرے بیتاب ہوجاتے تھے، ان باتوں سے آپ کے اندر بیتابی نہیں پیدا ہوتی تھی۔ بعض اوقات مکہ میں آپ کے دشمن آپ کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے تھے کہ ان میں سے ایک کے بارے میں جب جناب ابوطالب نے سنا تو اتنا غصبناک ہوئے کہ تلوار لی اور اپنے ملازم کے ساتھ وہاں گئے جہاں رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گستاخی ہوئی تھی اور پھر جتنے لوگوں نے گستاخی کی تھی ان میں سے ہر ایک کے ساتھ وہی کام کیا اور کہا کہ تم میں سے جو بھی اعتراض کرے گا اس کی گردن مار دوں گا، مگر پیغمبر نے وہی گستاخی بردباری کے ساتھ برداشت کی تھی۔ ایک بار ابوجہل سے آپ کی گفتگو ہوئی اور ابوجہل نے آپ کی بڑی توہین کی مگر آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے بردباری سے کام لیا اور خاموشی اختیار کی۔ کسی نے جاکے جناب حمزہ کو اطلاع دے دی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ جناب حمزہ بیتاب ہو گئے۔ آپ گئے اور کمان سے ابوجہل کے سر پر اتنی زور سے مارا کہ خون نکلنے لگا اور پھر اسی واقعے کے بعد آپ نے اسلام کا اعلان کیا۔ بعض اوقات کچھ لوگ مسجد میں آتے تھے، پیر پھیلا کے رسول سے کہتے تھے کہ میرے ناخن کاٹ دیجئے، اس لئے کہ ناخن کاٹنے میں آپ کو مہارت تھی، پیغمبر بھی پوری بردباری کے ساتھ اس گستاخی اور بے ادبی کو برداشت کرتے تھے۔

اچھے اخلاق کی دعوت لوگوں کو ہمیشہ اچھی باتوں یعنی، عفو و درگذر، چشم پوشی، مہربانی، ایک دوسرے سے محبت، کاموں میں پائیداری، صبر، حلم، غصہ پر قابو پانے، خیانت نہ کرنے، چوری نہ کرنے، بد کلامی نہ کرنے، کسی کا برا نہ چاہنے، اور دل میں کینہ نہ رکھنے وغیرہ کی نصیحت و تلقین کریں۔ لوگوں کو ان باتوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ کوئی ایسا زمانہ فرض نہیں کیا جا سکتا جب ان اچھی باتوں کی ضرورت نہ رہے۔ لوگوں کو ہمیشہ ان اقدار کی ضرورت رہتی ہے۔ اگر معاشرے میں یہ اقدار نہ ہوں تو ترقی کی اوج پر ہونے کے باوجود معاشرہ برا اور ناقابل قبول ہوگا۔ ( جاری ہے )