يوم ظہور پرنور خاتون جنت سيدہ النسا (حصّہ پنجم)
حضرت فاطمہ (س) کا نظام عمل
حضرت فاطمہ زہرا نے شادي کے بعد جس نطام زندگي کا نمونہ پيش کيا وہ طبقہ نسواں کے لئے ايک مثالي حيثيت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتي تھيں ۔جھاڑو دينا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکي پيسنا اور بچوں کي تربيت کرنا ۔يہ سب کام اور ايک اکيلي سيدہ ليکن نہ تو کبھي تيوريوں پر بل پڑے اور نہ کبھي اپنے شوہر حضرت علي عليہ السّلام سے اپنے ليے کسي مددگار يا خادمہ کے انتظام کي فرمائش کي۔ ايک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا سے ايک کنيز عطا کرنے کي خواہش کي تو رسول نے بجائے کنيز عطا کرنے کے وہ تسبيح تعليم فرمائي جو تسبيح فاطمہ زہرا کے نام سے مشہور ہے ۔ مرتبہ الله اکبر، 33 مرتبہ الحمد الله اور 33 مرتبہ سبحان الله ،حضرت فاطمہ اس تسبيح کي تعليم سے اتني خوش ہوئي کہ کنيز کي خواہش ترک کردي ۔ بعد ميں رسول نے بلا طلب ايک کنيز عطا فرمائي جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔ جناب سيّدہ اپني کنيز فضہ کے ساتھ کنيز جيسا برتاو نہيں کرتي تھيں بلکہ اس سے ايک برابر کے دوست جيسا سلوک کرتي تھيں. وہ ايک دن گھر کا کام خود کرتيں اور ايک دن فضہ سے کراتيں۔ اسلام کي تعليم يقيناً يہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگي کے جہاد ميں مشترک طور پر حصہ ليں اور کام کريں . بيکار نہ بيٹھيں مگر ان دونوں ميں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسيم عمل ہے . اس تقسيم کار کو علي عليہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طريقہ پر دُنيا کے سامنے پيش کر ديا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپني قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کي زندگي کے خرچ کا سامان مہيا کرنا علي عليہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا انجام ديتي تھيں۔ (جاري ہے )