پیغمبر ص کی زہد و پارسائی
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
''قَدْ حَقَّرَ الدُّنْيا وَصَغَّرَ ها وَأَهوَنَ بِها وَهوَّنَها ،وَعَلِمَ أَنَّ اللّٰه زَوَاها عَنْه اَخْتِياراً،وَبَسَطَها لِغَيرِه احْتِقَاراً،فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْيا بِقَلْبِه،وَأَمَاتَ ذِکْرَها عَنْ نَفْسِه ،وَأَحَبَّ أَن تَغِيبَ زِينَتُهاعَنْ عَينِه، لِکَيلَا يتَّخِذَمِنْها رِياشاً ،أَو يرْجُوَ فِيها مَقَاماً ،بَلَّغَ عَنْ رَبِّه مُعْذِراً،وَنَصَحَ لِأُ مَّتِه مُنْذِراً،وَدَعَا اِلَی اَلْجَنَّةِ مُبَشَّراً، وَخَوَّفَ مِنَ النَّارِ مُحَذَّراً''٢٥
'' آپۖ نے اس دنیا کو ذلیل و خوار سمجھا اور پست و حقیر جانا اور یہ جا تے تھے اللہ نے آپ کی شان کو با لا تر سمجھتے ہو ئے اور اس دنیا کو آپ سے الگ رکھا ہے اور گھٹیا سمجھتے ہو ئے دوسروں کے لیے اس کا دامن پھیلا دیا ہے لہذا آپ نے دنیا سے دل سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اس کی یاد کو دل سے بالکل نکال دیا اور یہ چاہا کہ اس کی سج دھج نگاہوں سے اوجھل رہے کہ نہ اس سے عمدہ لباس زیب تن فرمائیں اور کسی نہ خاص مقام کی امید کر یں ،آپ نے پروردگار کے پیغام کو پہنچانے میں سارے عذر اور بہانے بر طرف کر دئیے اور امت کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہو ئے نصحیت فرمائی جنت کی بشارت سنا کر اس کی طرف دعوت دی اور جہنم سے بچنے کی تلقین کر کے خوف پیدا کرایا ''
اس بارے میں آنحضرت ۖ کی سیرت کو بیان کر تے ہو ئے ارشاد فرماتے ہیں
''وَلَقَدْکَانَ صَلَّیٰ اللّٰه عَلَيه وَآلِه وَسَلَّمَ،يأ کُلُ عَلَیٰ اْلَارضِ ،وَيجْلِسُ جِلْسَةَ اَلْعَبْدِ ،وَيخْصِفُ بِيدِه نَعْلَه ،وَےَرْقَعُ بِےَده ثَوْبَه،وےَرْکَبُ اَلْحِمَارَ اَلْعَارِیَ وَيرْدِفُ خَلْفَه وَےَکُونُ السَّتْرُ عَلَیٰ بَابِ بَيته فَتَکُونُ فِيه التَّصَاوِيرُ ،فَيقُولُ : (ےَا فُلَانَةُ لِاحْدَیٰ أَزْوَاجِه غَيبيه عَنِّی ،فَانِّیِ اِذَا نَظَرْتُ اِلَيه ذَکَرْتُ الدُّنْيا وَزَخَارِفَها)فَأَعْرَضَ عَنِ الَدُّنْيا بِقَلْبِه،وَأمَاتَ ذِکْرَها مِنْ نَفْسِه ،وَأَحَبَّ أَنْ تَغِيبَ زِينَتُها عَنِ عَينِه ،لِکَيلَا يتَّخِذَ مِنْها رِےَاشاً ،وَلَا ےَعْتَقِدَها قَرَاراً،وَلَاےَرْجُوَ فِيها مُقَاماً ،فَأَخْرَجَها مِنَ النَّفْسِ ، وَأَشْخَصَهاعَنِ اَلْقَلْبِ،وَغَيبَهاعَنِ اَلْبَصَرِ وَکَذٰلِکَ مَنْ أَبْغَضَ شَياً أَبْغَضَ أَنْ ينْظُرِ اِلَيه ،وَأَنْ يذْکَرَ عِنْدَه''٢٦
''رسول اللہ ۖزمین پر بیٹھ کر کھانا کھا تے تھے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے اپنے
ہا تھ سے جو تی ٹانکتے تھے اور اپنے ہا تھو ں سے کپڑوں میں پیو ند لگائے تھے اور بے پا لا ن گدھے پر سوار ہو تے تھے اور اپنے پیچھے کسی کو بیٹھا بھی لیتے تھے،گھر کے دروازے پر ایک دفعہ ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں تو آپ نے اپنی ایک زوجہ سے فرمایا کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو ،جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اور اس کی آرائشیں یاد آجا تی ہیں ،آپ نے دنیا سے دل ہٹا لیاتھا اور اس کی یاد تک اپنے نفس سے مٹا ڈالی تھی اور یہ چاہتے تھے کہ اس کی سج و دھج نگاہوں سے پوشیدہ رہے تا کہ ان سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کر یں اور نہ اُسے اپنی منزل خیال کریں اور نہ اُس میں زیادہ قیام کی آس لگائیں ،انہوں نے اس کا خیال نفس سے نکال دیا تھا اور دل سے ہٹا دیا تھا اور نگاہوں سے اُسے اوجھل رکھا تھا یو نہی جو شخص کسی شے کو بُرا سمجھتا ہے تو اُسے نہ دیکھنا چاہتا ہے اور نہ اس کا ذکر سننا گوارا کرتا ہے '' ( جاری ہے )
متعلقہ تحریریں:
غدير خم کے واقعہ پر روشني
ولايت امير المۆمنين پر نازل ہونے والي آيت کي دليلوں کي علامات