• صارفین کی تعداد :
  • 3319
  • 1/9/2014
  • تاريخ :

آخري نبي  ص کي آمد

آخری نبی  ص کی آمد

درج بالا آيہ مبارکہ ميں اللہ تعاليٰ نے فرمايا کہ :

امت مسلمہ پر ميرا يہ احسان، انعام اور لطف وکرم ہے کہ ميں نے اپنے محبوب کو تمہاري ہي جانوں ميں سے تمہارے لئے پيدا کيا- تمہاري تقديريں بدلنے، بگڑے ہوئے حالات سنوارنے اور شرف وتکريم سے نوازنے کيلئے تاکہ تمہيں ذلت وگمراہي کے گڑھے سے اٹھا کر عظمت وشرفِ انسانيت سے ہمکنار کر ديا جائے- لوگو! آگاہ ہو جاۆ کہ ميرے کارخانہ قدرت ميں اس سے بڑھ کر کوئي نعمت تھي ہي نہيں- جب ميں نے وہي محبوب تمہيں دے ديا جس کي خاطر ميں کائنات کو عدم سے وجود ميں لايا اور اس کو انواع واقسام کي نعمتوں سے مالا مال کر ديا تو ضروري تھا کہ ميں رب العالمين ہوتے ہوئے بھي اس عظيم نعمت کا احسان جتلاۆں ايسا نہ ہو کہ امت مصطفوي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اسے بھي عام نعمت سمجھتے ہوئے اس کي قدرومنزلت سے بے نيازي کا مظاہرہ کرنے لگے-

قرآن مجيد پيغمبراسلام (ص)کے سلسلے ميں فرماتا ہے :

وكذلك جعلناكم امة وسطاً لتكونوا شهداء علي النّاس ويكون الرسول عليكم شهيداً 2

اور اسي طرح ہم نے تم کو درمياني امت قرار ديا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پيغمبر تمھارے اعمال کے گواہ رہيں -

اس آيت کے دو معني ہيں :ايک ظاہري معني جسے تمام افراد سمجھ سکتے ہيں،وہ يہ ہے کہ امت اسلاميہ کو دوسري امتوں کے لئے سرمشق قرار ديا گيا ہے تاکہ دوسري اقوام اس کي پيروي کريں اور پيغمبر اسلام (ص) بھي امت اسلاميہ کے لئے نمونہ عمل ہيں -ليکن اس کے ايک دوسرے معني بھي ھيں جسے ائمہ معصومين عليہم السلام نے بيان فرمايا ہے اور شيعہ مفسرين خصوصاً علامہ طباطبائي نے اس آيت کريمہ کے ذيل ميں مفصل بحث کي ہے اور ان روايات سے استفادہ کيا ہے -وہ معني يہ ہے کہ امت اسلاميہ قيامت کےدن دوسري امتوں کے اعمال کي گواہ ہے اور چونکہ ساري امت والے اس عمل گواہي کي لياقت نہيں رکھتے لہذا يہ امر ائمہ عليہم السلام سے مخصوص ہے ،سني اور شيعہ دونوں کي روايات ميں اس بات کي طرف اشارہ موجود ہے -

بہر حال آيت کا مفہوم يہ ہے کہ پروردگار عالم نے ائمہ طاہرين کو خلق کيا تاکہ وہ قيامت کے دن لوگوں کے اعمال کي شہادت ديں اور پيغمبر اکرم(ص) کو ان کے اعمال پر گواہ قرار ديا گيا -اور چونکہ گواہ کے لئے ضروري ہے کہ وہ اسي دنيا ميں تمام امت کے اعمال سے باخبر ہو تاکہ قيامت کے دن شہادت دے سکے ،لہذا ضروري ہے کہ ائمہ عليہم السلام اس عالم وجود پر پوري طرح سے احاطہ اور اشراف رکھتے ہوں تاکہ امت کے اعمال سے مطلع رہيں ،يہي نہيں بلکہ ضروري ہے کہ انسانوں کے دل ميں چھپے ہوئے اسرار سے بھي واقف ہوں تاکہ قيامت کےدن اعمال کي کيفيت کي بھي گواہي دے سکيں - ان تمام اوصاف کے حامل افراد کو واسطہ فيض کہتے ہيں ،بہ الفاظ ديگر انھيں ولايت تکويني حاصل ہوتي ہے -( جاري ہے )


متعلقہ تحریریں:

مدينہ ميں حضرت محمد صلّي اللہ عليہ و لہ کي ولادت

حلم پيغمبر ص اور ترويج اسلام