مجھے رات کے وقت دفن کرنا اور لوگ شريک جنازہ نہ ہوں
جناب فاطمہ الزہرا
جناب فاطمہ زہراء (س) کا بچپن تنگي اور مصائب ميں گزرا
رسول اللہ (ص) نے کہا کہ فاطمہ اجازت دے دو يہ ملک المون ہيں- (عجائب القصص صفحہ 282) ليکن افسوس ناک امر يہ ہے کہ بايں مراتب و عظمت بعد وفات رسول (ص) سب سے زيادہ جناب فاطمہ گو ايذائيں دي گئيں- والدہ جناب خديجہ کا سايہ سر سے پہلے ہي اٹھ چکا تھا- حضرت علي (ع) کا منصب خلافت حکم رسول کے برعکس کر ليا گيا تھا- وادہ سے محروم تھيں- حق وراثت کا دعوي کالعدم ٹھہرا ديا گيا حجرہ جناب فاطمہ گو آتش کدہ بنا کر احراق باب فاطمہ (س) کا ارتکاب روا رکھا گيا تھا- چنانچہ ان تمام باتوں کا آپ کو اس قدر شديد غم ہوا کہ گھل گھل کر بہ اختلاف روايت 75 يا 100 دنوں ميں آپ کا انتقال ہوگيا- اس پر بھي بس نہيں ہوا- ايسي چہيتي بيٹي کو پہلوئے رسول (ص) ميں جگہ نہيں دي گئي- شمس العلما ڈپٹي نذير احمد لکھتے ہيں کہ جناب فاطمہ (س) نے حضرت ابوبکر و غيرہ سے بات کرنا ترک کردي تھي- اور وصيت کي تھي کہ "مجھے رات کے وقت دفن کرنا اور لوگ شريک جنازہ نہ ہوں-" (الاستيعاب عبدالبر جلد 5 صفحہ 25) اس کے علاوہ موصوف نے اپني کتاب رويائے صادقہ ميں بڑي تفضيل سے تبصرہ کيا ہے "سخت افسوس ہے کہ اہل بيت نبوي (ع) کو پيغمبر (ص) کي وفات کے بعد ہي ايسے نا ملائم اتفاقات پيش آئے کہ ان کا وہ ادب جو ہونا چاہيئے تھا اس ميں ضعف آگيا- اور شدہ شدہ يہ ہوا کہ ناقابل برداشت واقعہ کربلا جس کي تاريخ ميں مثال نہيں ملتي يہ بھي اسي طرح کے رويوں کا نتيجہ تھا- يہ ايسي نا لائق حرکت مسلملنوں سے ہوئي ہے کہ اگر سچ پوچھو تو دنيا ميں منہ دکھانے کے قابل بھي مسلمان نہيں رہ گئے ہيں-
کسي نے ٹھيک ہي کہا ہے- کہ جناب حسين عليہ السلام کربلا سے پہلے سقيفہ ميں ہي شہيد کر ديے گئے تھے-"
يہ ہيں حالات جناب فاطمہ (س) ايک نظر ميں ورنہ کسي کي يہ مجال نہيں کہ وہ کل حالات و مراتب و مناسک جناب فاطمہ (س) کا احاطہ کر سکے-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان