جناب فاطمہ زہراء (س) کا بچپن تنگي اور مصائب ميں گزرا
جناب فاطمہ الزہرا
جناب فاطمہ زہراء (س) کا بچپن تنگي اور مصائب ميں گزرا آپ کي تربيت جناب خديجہ الکبري، جناب فاطمہ بنت اسد حضرت رسول خدا (ص) ام ہاني، ام افضل زوجہ عباس، ام ايمن، صفيہ بنت حمزہ کے زير نگراني ہوئي-
جناب فاطمہ کي فضيلت اور ان کے مدارج کے ثبوت آيات قرآني اور ان گنت احاديث مستند موجود ہيں آپ (ص) نے فرمايا الفاطمة بضعة مني فاطمہ ميرا ٹکڑا ہے- جو اسے اذيت دے گا گويا مجھے اذيت دے گا اور جو مجھے اذيت پنچائے گا وہ خدا کو اذيت پہنچائے گا- ترمذي جلد 2 صفحہ 249 طبع مصر ميں ہے کہ جب جناب فاطمہ (س) آتي تھيں تو آپ (ص) ان کي تعظيم ميں کھڑے ہوتے تھے اور اپني جگہ پر بٹھاتے تھے- آپ (ص) اکثر فرمايا کرتے تھے، مردوں ميں تو بہت سے لوگ کامل گذرے ہيں اور عورتوں ميں مريم، آسيہ، خديجہ اور فاطمہ ہيں- اور ان سب ميں فاطمہ (س) کا سب سے بڑا درجہ ہے-
پيغمبر خدا (ص) کے عين حيات جناب فاطمہ کي قدر و منزلت عزت و توقير کي کوئي خد نہيں تھي- انسان تو درکنار ملائکہ زمين پر اتر کر ان کي خدمت کرتے کبھي جنت سے طبق لاتے- اگر انہوں نے حضرات حسنين (ع) سے عيد کے موقع پر يہ کہہ ديا " بچو! تمہارے کپڑے درزي لائے گا" چنانچہ حکم خدا سے خازن بہشت کو درزي بن کر حلہ بہشت لانا پڑا- انتہا يہ ہے کہ ملک الموت تک بغير اذن جناب فاطمہ گھر ميں داخل نہيں ہو سکتے تھے- علامہ عبد المومن حنفي لکھتے ہيں " سرور کائنات کے بوقت آخر فاطمہ (س) کے زانو پر سر تھا ملک الموت نے دروازے پر دستک دي اور داخلہ کي اجازت چاہي- جناب فاطمہ (س) کے انکار پر وہ ہيں رک گئے- ليکن بار بار دستک ديتے اور اذن جناب فاطمہ (س) کے طلبگار رہے اور آپ (ص) برابر منع کرتي رہيں- جناب فاطمہ (س) کسي خطرے کا اندازہ کر کے گلوگير ہوگئيں قطرات رخسار جناب رسول خدا (ص) پر پڑے- آپ نے پوچھا فاطمہ کيا بات ہے؟ جناب فاطمہ (س) نے سارا واقعہ بيان کرديا-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان