جناب فاطمہ الزہرا
حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور حضرت خديجہ الکبري کي الکوتي بيٹي تھيں- آپ کي مشہور کنيت ام الائمہ اور مشہور لقب سيدہ النساء ہے- يہي وہ سند افضليت ہے جو انہيں ازل سے ابد تک آنے والي تمام عورتوں سے سرفراز و ممتاز اور لائق احترام بناتي ہے-
اس موقع پر يہ امر لائق اظہار ہے کہ اکثر کوتاہ بينوں نے رسول خدا (ص) کي تين اور بيٹيوں زينب (س)، رقيہ ام کلثوم کا بھي ذکر کيا ہے- حالانکہ يہ امر مسلمہ ہے کہ جناب خديجہ الکبري آنحضرت (ص) سے عقد کے وقت باکرہ يعني کنواري تھيں- نيز يہ کہ قاسم و عبداللہ (طيب و طاہر) اور جناب فاطمہ (س) حضرت خديجہ کے بطن سے رسول اللہ صلعم کي اولاديں تھيں- يہ بات بھي اپني جگہ مصدقہ ہے کہ اعلان نبوت سے قبل يہ لڑکياں پسران ابولہب اور ابوالعاص سے منسوب ہوچکي تھيں- (مروج الذہب مسعودي جلد 2 صفحہ 298 طبع مصر) غور طلب يہ امر ہے کہ 25 سال کي عمر ميں آپ (ص) نے حضرت خديجہ سے نکاح کيا تھا- پانچ سال تک کسي اولاد کا ظہور نہيں ہوا- چاليس سال کي عمر تک پہنچ کر آپ (ص) کے بيٹے بھي ہوئے اور تين بيٹياں بھي اور اس مدت ميں اس عمر کو پہنچ گئيں کہ رسول خدا (ص) نے بغير سوچ سمجھے کافروں کے ساتھ انہيں بياہ بھي ديا- يہ خيال کسي شديد بدحواسي کا مفروضہ ہے اور پيغمبر (ص) پر کتنا زبردست اتہام ہے ان عقائد کا واضح مقصد جناب فاطمہ (س) کے مدارج و مناسک کو مجروح کرنے کے سوا اور کچھ نہيں ہے- يہ لڑکياں جناب جناب خديجہ کي نہيں بلکہ ہمشيرہ خديجہ ہالہ بنت خويلد کي تھيں- اپني والدہ اور والد ابوالہند کي ناچاقيوں کي بنا پر اپني خالہ جناب خديجہ کے زير کفالت رہيں- يہي لڑکياں حضرت خديجہ کے رسول اللہ (ص) کے ساتھ ازواج منسلک ہونے کي بعد رسول اللہ (ص) کي بيٹياں کہي جانے لگيں- حالانکہ در اصل دو بيٹياں نہيں تھيں-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحریریں:
اصلاح معاشرہ ميں خواتين کا اہم کردار