فاطمہ (س) فاطمہ (س) ہيں
اصلاح معاشرہ ميں خواتين کا اہم کردار
امام خميني (رح): حضرت فاطمہ (س) پر خاندان نبوت کو ناز ہے
جناب فاطمہ کے دونوں بيٹے اسلام پر قربان ہوگئے
مگر حضرت فاطمہ (س) خود اتني عظمتوں اور فضيلتوں کي مالکہ ہيں کہ پروردگار عالم ملائکہ کے سامنے ان کي نسبت سے اہل بيت عليہم السلام کا تعارف فرماتا ہے- هم فاطمة و ابوها و بعلها و بنوها. يعني فاطمہ (س) کے باپ رسول (ص)، فاطمہ (س) کے شوہر امام علي (ع)، فاطمہ کے بيٹے امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) ہيں- اس عقيدہ و نظريہ کے مطابق ايراني مفکر و دانشور مرحوم ڈاکٹر علي شريعتي کا کہنا ہے کہ حضرت فاطمہ (س) کو صرف کسي عظيم ہستي کي نسبت سے محترم و معززمت جانو بلکہ فاطمہ (س) کي ذات والا صفات سے سمجھو- کيونکہ فاطمہ (س) فاطمہ (س) ہيں- يہ بات بالکل سچ ہے کہ سماج و معاشرہ کي اصلاح و تطہير و تعمير و ترقي کے ليے تعليم يافتہ، نيک اور مہذب خواتين کي بڑي ضرورت ہے- زمانہ جاہليت ميں عرب کے سماج ميں يہ کج فکري، خام خيالي اور گمراہي عام تھي کہ لڑکي باپ کے ليے باعث ننگ و عار سمجھي جاتي تھي- اس ليے لڑکي کو پيدا ہوتے ہي زندہ در گور کرديا کرتے تھے- مگر فاطمہ زہرا (س) کي آمد شريف سے عربوں کي سوچ ميں ايسي بڑي نمايان تبديلي آئي کہ قيامت تک کے ليے ہر انسان يہ ماننے پر مجبور ہوگيا کہ واقعا اگر ايک لڑکي نيک، تعليم يافتہ، اور حسن اخلاق و عمل سے آراستہ ہو تو نہ صرف اپنے والدين، خاندان بلکہ پورے قوم و قبيلہ اور ملک و ملت کے ليے باعث عز و افتخار بھي ہوا کرتي ہے- شايد ان ہي وجوہات کے سبب پيغمبر اسلام (س) نے اس وقت تک اصلاح معاشرہ اور حکام شريعت کي تبليغ کا کام شروع نہيں کيا جب تک فاطمہ (س) سن بلوغ کو نہيں پہنچيں- لہذا اصلاح معاشرہ کے ليے اعلي تعليم يافتہ اور بلند کردار خواتين کے بغير کاميابي نا ممکن ہے- و ما علينا الا البلاغ-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان