حضرتِ فاطمہ سلام اللہ عليہا کي معاشي زندگي
مالک کونين صلي اللہ عليہ و سلم کي لخت جگر کي معاشي زندگي نہايت سادگي ميں گزري- شادي کے بعد حضور صلي اللہ عليہ و سلم نے قدرت کے باوجود اس کو غريبوں پر خرچ کرنا ضروري سمجھا اور حضرت فاطمہ کو کبھي کچھ سامان عطا نہيں فرمايا- حضرت فاطمہ رضي اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا کام خود ہي کرتي تھيں-
چکي پيستے پيستے آپ کے نرم و نازک ہاتھوں ميں گھٹے بن گئے-
کنويں سے ڈول کي رسي کھينچنے کي وجہ سے چھالے پڑ گئے تھے، جس سے بسا اوقات خون رسنے لگتا، چولہا پھونکتے پھونکتے رخِ زيبا متغير ہو جاتا اور دھوئيں سے آنکھيں سرخ ہو جاتيں-
ايک دن حضرت علي رضي اللہ تعالي ٰعنہ نے جب حضرت سيدہ فاطمہ رضي اللہ تعاليٰ عنہا کي يہ حالت ديکھي تو آپ تڑپ گئے اور فرمايا اے فاطمہ! اب تو پاني بھرتے بھرتے سينہ ميں بھي درد ہونے لگا ہے آج کل دربارِ رسالت صلي اللہ تعاليٰ عليہ و سلم ميں بہت سے غلام اور کنيزيں قيد ہو کر آئي ہيں- آقا صلي اللہ عليہ و سلم مالِ غنيمت تقسيم فرما رہے ہيں- جاۆ تم بھي ايک کنيز مانگ لاۆ، حضرت علي کرم اللہ تعاليٰ وجہہ الکريم کے کہنے پر سيدہ فاطمہ رضي اللہ عنہا بارگاہِ اقدس ميں حاضر ہوئيں- حضور صلي اللہ عليہ و سلم نے حضرت فاطمہ سے آنے کا مقصد دريافت فرمايا تو وہ شرم و حيا کي وجہ سے اصل مدعا بيان نہ کر سکيں اور عرض کيا کہ زيارت اور سلام کي غرض سے حاضر ہوئي ہوں اور خالي ہاتھ واپس لوٹ گئيں- جب حضرت علي نے معاملہ کي نوعيت جاننا چاہي تو انہوں نے کہا کہ ميري شرم و حيا نے ابا حضور کے آگے دست سوال دراز کرنے کي اجازت نہيں دي- پھر دونوں حضرات بارگاہِ نبوت ميں حاضر ہوئے اور حضرت علي اور حضرت فاطمہ نے بارگاہِ رسالت ميں اپني اپني پريشانيوں کا ذکر کرنے کے بعد عرض کيا کہ حضور! بارگاہ ميں بہت سے قيدي آئے ہوئے ہيں کرم فرمائيے اور ان ميں سے کوئي کنيز يا غلام ہميں بھي عنايت فرما ديجيے- يہ سن کر سرکارِ دو عالم صلي اللہ عليہ و سلم نے فرمايا، اللہ کي قسم ميں تم کو کوئي خادم نہيں دوں گا- کيا ميں اہل صفہ کے حق کو چھوڑ دوں اور ان کو بھول جاۆں جو فقر و فاقہ کي وجہ سے ايک ايک روٹي کے محتاج ہيں ؟؟- ميرے پاس ان غلاموں اور کنيزوں کے علاوہ کوئي چيز نہيں جس سے ان کي امداد کروں ، ميں انھيں بيچ کر ان کي قيمت اصحاب صفہ پر خرچ کروں گا- يہ سن کر دونوں حضرات دامن صبر کو تھامے گھر واپس آ گئے، پھر ان کي دل جوئي کي خاطر خود رسول محتشم صلي اللہ عليہ و سلم ان کے گھر تشريف لائے اور فرمايا کہ تم لوگ ميرے پاس جو چيز مانگنے آئے تھے کيا ميں تم کو اس سے اعليٰ چيز نہ دوں ؟، انہوں نے عرض کيا ضرور، عطا فرمائيے-
تو آپ صلي اللہ عليہ و سلم نے فرمايا کہ ہر نماز کے بعد دس دس بار سبحان اللہ، الحمدللہ ، اللہ اکبر پڑھا کرو اور سوتے وقت 33 بار سبحان اللہ، 33بار الحمدللہ اور 34بار اللہ اکبر کا ورد کيا کرو- يہي تمہارے ليے خادم ہے- اس سے تمہارے تمام مشکل کام آسان ہو جائيں گے- يہ وظيفہ پاکر حضرت علي مرتضيٰ اور حضرت فاطمہ رضي اللہ عنہما حد درجہ خوش ہو گئے- (خاندانِ مصطفيٰ- ص: 577- از محمد سعيدالحسن شاہ)
حضور صلي اللہ عليہ و سلم نے اپني لخت جگر پر اپني غريب امت کو ترجيح دے کر اور حضرت علي رضي اللہ عنہ کي فرمائش کو رد کر کے قيامت تک کے ليے مسلمانوں کو ايک بہت بڑي مصيبت سے بچا ليا- اگر حضور صلي اللہ عليہ و سلم حضرت علي رضي اللہ تعاليٰ عنہ کے بھيجنے پر حضرت فاطمہ زہرا رضي اللہ عنہا کو کنيز عطا فرما ديتے تو آج کا بے غيرت انسان اس کو سنت سمجھ کر ملت کي غريب لڑکيوں کا جينا دشوار کر ديتا اور اپني فرمائش پوري کرنے کے ليے اپني بيوي کو اس کے باپ کے گھر بھيجنا سنت حيدري خيال کر ليتا ، مگر غيب داں نبي صلي اللہ عليہ و سلم کو يہ سب معلوم تھا کہ اس سے آنے والے سماج ميں مصيبت کا دروازہ کھل سکتا ہے-
تحرير: صابر رہبر مصباحي
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
حضرت فاطمہ (س) کے گھر کي بے احترامي (دوسرا حصّہ)