پيغمبراکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) پيکر صلح و رحمت
قرآن کريم، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظيم کے نام سے ياد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہيںتو يہ آپ کے نرم و ملائم اور فصيح و بليغ کلام کي وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو يہ سب آپ سے دور ہوجاتے - اسي طرح قرآن کريم آپ کے سينہ کي کشادگي اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعريف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہيں کوئي مشکل پيش آئے - اور دوسري آيت ميں فرماتا ہے : شايد تم چاہتے ہو کہ ان کي ہدايت کي خاطر اپني جان کو فدا کردو -
گذشتہ زمانے ميں تحريف ايک ايسا وسيلہ تھا جس سے جاہل اور مغرض افراد استفادہ کرتے ہوئے فائدہ اٹھاتے تھے اور اس کو بار بار بيان کرکے کوشش کرتے تھے کہ تحريف کے موضوع کوايک حقيقت اور واقعيت ميں بدل ديں -
صديوں سے خصوصا جنگ صليبي کے زمانہ سے مغرب ميں يہ کوشش کي جاتي تھي کہ پيغمبراکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي شخصيت کو مخدوش کرديں اور آپ کو جنگ طلب اور صلح سے بہت دور معرفي کريں، اور يہ کام ابھي تک مغرب ميں جاري ہے يہ لوگ دوسرے مذاہب کے افکار و مقدسات کو تسامع اورتساہل سے بيان کرتے ہيں اورخود کو سکولاريزم کے عنوان سے پہچنواتے ہيں ، ابھي تک ان کے تہذيب و تمدن کے گذشتہ آثار ختم نہيں ہوئے ہيں اس کے باوجود يہ لوگ پيغمبروں کے درميان فرق کے قائل ہيںجب کہ پيغمبروں کے درميان کوئي اختلاف نہيں ہے اور خداوندعالم نے ان سب کو ايک ہدف کيلئے اور انسانوں کي اصلاح و ہدايت کيلئے بھيجا ہے ، يہ لوگ ايک پيغمبر کو صلح و ثبات والا بيان کرتے ہيں اور دوسرے پيغمبر کو کسي اور طر ح سے پہچنواتے ہيں -
يہ لوگ ہميشہ نفاق و اختلاف کا بيج بوتے رہتے ہيں اور يہي نہيں بلکہ انبياء ميں بھي اختلاف بتاتے ہيں اور ہر روز ايک نيا فتنہ پيغمبر خاتم کيلئے ايجاد کرتے ہيں ، اس محبوب اور مظلوم پيغمبر کي توہين کرتے ہيں، اور کروڑوں مسلمانوں کے دل کو زخمي کرتے ہيں، ليکن ان تمام باتوں کے باوجود قرآن کي شہادت اور آنحضرت کے اقرار اور آپ کي مشہود سيرت عملي، ہمارے پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کو اخلاق، صلح، دوستي، برادري، رحمت اور محبت کا پيغمبر بتاتي ہے اور آپ کي مشقت بار زندگي اس بات کي گواہ ہے -
يہاں پر مختصر طور پر مندرجہ بالا خصوصيات کي وضاحت کريں گے:
1-بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظيم
قرآن کريم، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظيم کے نام سے ياد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہيںتو يہ آپ کے نرم و ملائم اور فصيح و بليغ کلام کي وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو يہ سب آپ سے دور ہوجاتے - اسي طرح قرآن کريم آپ کے سينہ کي کشادگي اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعريف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہيں کوئي مشکل پيش آئے - اور دوسري آيت ميں فرماتا ہے : شايد تم چاہتے ہو کہ ان کي ہدايت کي خاطر اپني جان کو فدا کردو -
2- گذشتہ انبياء کي رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقي کمالات کو پايہ تکميل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا
پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اپني بعثت کے ہدف کو بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں کہ ميں گذشتہ انبياء کي رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقي کمالات کو پايہ تکميل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں، لہذا آپ نے گذشتہ انبياء کي رسالت کو جاري رکھا ، پورا قرآن کريم ،گذشتہ انبياء کے اعتقاد اور ان کے احترام سے بھرا ہوا ہے اور گذشتہ انبياء کي کتب اور ان کي رسالت کا بھي قرآن کريم ميں تذکرہ ملتاہے -
3- صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دينا
- پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم)نے اپني زندگي ميں اپني عملي سيرت کے ذريعہ ()اور جنگجو و سرکش قوم کے درميان زندگي بسر کرکے ايسي امت بنائي جو اپنے کينہ اور حسد کو بھول گئي اور انہوں نے اپني قدرت و طاقت يعني فتح مکہ کے وقت بھي آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي پيروي کرتے ہوئے صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار ديا ، بعض جگہوں پر ايمان لانے والے اپنے زمانہ جاہليت کے قصہ آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم)سے بيان کرتے تھے اور آپ ان حادثات کو بيان کرنے سے منع کرتے تھے يا دوسرے لفظوں ميں يہ کہا جائے کہ آپ ان کي وحشي گري اور بے رحمي کي باتوں کو برداشت نہيں کرپاتے تھے ، آپ نے اپنے بيٹے ابراہيم کي موت اور اپنے چچا حضرت حمزہ(ع) کي شہادت پر گريہ و عزاداري کرکے اس معاشرہ ميں ايک قسم کے عاطفہ، رحم اور احساسات کو جگايا، آپ جاہلي معاشرہ پر اپنے اثرات چھوڑرہے تھے ، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم)نے مہاجر و انصار اور دوسرے مسلمانوں کے درميان جو ارتباط و عاطفہ پيدا کيا وہ ان لوگوں کيلئے ايک بہترين پيغام تھاجو اپنے جاہليت کے زمانہ کے بغض و حسد کو زمانہ اسلام ميں بھي قائم کرنے کي کوشش کرتے تھے -
4- مسلمانوں کے درميان عقد اخوت قائم کرنا
اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ ظہور اسلام کے بعد عرب کے قوانين و احکام ميں ايک عميق تبديلي پيدا ہوگئي ، اور يہ تبديلي، اسلام کے جديد قوانين و احکام اور رسوم جاہلي کے آداب ، افکار اور عقايد سے مستقم تعارض ہونے کي وجہ سے آئي تھي، ان ميں سے بعض احکام کو اسلام نے تاسيس کيا اور بعض احکام کي تائيد کي اور ان کے اندر اصلاحات اور تبديلياں انجام ديں، اور جاہليت کے تمام مظاہر کو ان سے حذف کرديا جيسے حج کے احکام سے شرک کے مظاہر کو حذف کرديا گيا -
بعض افراد ہمارے پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے عقد اخوت کو جاہلي کے عہدو پيمان ''حلف'' سے تعبير کرتے ہيں ، وہ لوگ اس بات کي طرف توجہ نہيں کرتے کہ ہمارے پيغمبر اکرم نے جو کام انجام ديا ہے وہ زمانہ جاہلي کے عہد و پيمان ''حلف'' کے برخلاف ہے ، ہمارے پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے عہد و پيمان ميں بندہ اور مولي ، ضعيف و قوي ، ثروتمند و فقير کا رابطہ مساوي سمجھا جاتا تھا اور اپنے آپ سے زيادہ دوسروں کو نزديک سمجھتے تھے يہاں تک کہ ايک دوسرے کو وصيت کرتے تھے لہذا آپ نے فرمايا : '' لا حلف في الاسلام''-
5- قوم اور قبيلہ کے عقيدے کو ختم کرنا
زمانہ جاہليت کي عداوت، دشمني، بغض اور حسد ان کے دلوں ميں باقي رہ گيا تھا خاص طورسے انصار کے دل ، بھرے ہوئے تھے ، يہ ايسي حقيقت ہے جس کي قرآن کريم نے بھي تصريح کي ہے(جس وقت تم لوگ آپس ميں دشمن تھے)اور يہ دشمني ظاہري نہيں تھي جو ايک آدمي يا چند افراد کے وسيلے سے ختم ہوجاتي بلکہ يہ اجتماعي مشکل اس قدرعميق تھي کہ خداوند عالم نے پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے فرمايا: اگر تم زمين کي تمام قيمت کو ان پر صرف کرديتے تو يہ کام انجام نہ پاتا - اور خداوند عالم نے پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے اس عمل کو اس کي اہميت و ارزش کي وجہ سے اپني طرف نسبت دي ہے اور يہ کوئي سياسي يا کسي خاص زمانہ کيلئے کام نہيں تھا جس کوالفاظ يا نعروں ميں خلاصہ کرديا جائے اور اسي طرح قوم وقبيلہ کے عقيدہ کا معيار اس طر ح ہوگيا کہ مختلف قوم و قبيلہ کے لوگ اس زمانہ ميں ايک مسلمان امت ''المومنون اخوة'' کے زمرہ ميں آگئے لہذا جو کاروان مدينہ آئے انہوں نے آپ کے اس اقدام کا بہت زيادہ ااستقبال کيا اور انہوں نے اسلام کو قبول کرليا ، اسي طرح پيغمبراکرم کے دوسرے بہت سے اقدامات ہيں جو آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے زندہ و جاويد معجزے ہيں اور يہ سب آپ کے اخلاق حسنہ ، رحمت، محبت، صلح اور برادري و بھائي چارگي کي وجہ سے وجو د ميں آيا تھا -
تحرير : سيد ابوالحسن نواب
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحریریں:
محمد (ص) بيسويں صدي ميں