محمد (ص) مسيح مخالف فرد کي حيثيت سے
لوتھر نے سولھويں صدي کي دوسري دھائي سے کليسا اور پوپ کے خلاف علم بغاوت بلند کيا جس کے نتيجے ميں کليسا نے انہيں کافر قرارديا اس زمانے سے يورپ ميں ايک بنيادي تضاد پيدا ہوگيا-ايراسموس جو ايک اومانسٹ تھے وہ حقيقت وجود کے بارے ميں تمام تراختلافات کے باوجود رواداري اور تمام دينوں کے احترام اور خدا کي تقديس وتکريم کے قائل تھے -عيسائيت ميں اختلافات کے طول پکڑنےسے اکثريت لوتھر کي گرويدہ ہوگئي تھي اور پوپ کوعيسي مسيح کا مخالف اور دجال کہا جانے لگا تھا-لوتھرجو پروٹسٹينيزم کے باني شمار ہوتے تھےانہوں نے بھي محمد و اسلام کے بارے ميں نہايت شديد نظريات پيش کۓ جو ان کے پيرووں ميں رائج ہوگئے ليکن اس زمانے ميں اہم بات يہ تھي کہ قرون وسطي ميں محمد کو جو دجال کا لقب دياگيا تھا اب يہ لقب پوپ کے لۓ استعمال ہونے لگا اور پروٹسٹينٹ عيسائيوں کي نظر ميں پوپ تھے جو عيسي مسيح کے مخالف بن چکے تھے-عيسائيت ميں دجال کا تصور نہايت اھميت کا حامل ہے کرامول اپني کتاب "پوپ وہي دجال ہيں "ميں لکھتے ہيں کہ خدا اور انسان کے نجات دھندہ عيسي مسيح کے بعد کسي چيزکي شناخت دجال کي شناخت سے زيادہ اہميت نہيں رکھتي "رنيسينس کے آغازميں دجال کے مفہوم ميں توسيع آگئي تھي-دجال کون تھا؟پوپ پادري ترک يا پھر محمد (ص)-لوتھر کي نظر ميں دجال کا حقيقي تجسم پوپ تھا جبکہ برطانوي عيسائيوں کي نظر ميں محمد و پوپ دونوں اہريمني وجود کے حامل تھے تاہم پوپ کو زيادہ خطرناک سمجھتے تھے چونکہ وہ داخلي دشمن تھے-پندرہ سو پچاس ميں لکھے جانے وال ايک ڈرامے ميں ترکوں اور کيتھولک عيسائيوں کا مقابلہ کرتے ہوۓ کہا گيا ہےکہ "جراءت سے يہ کہا جاسکتاہے کہ ترک ہزار گنا تم لوگوں (کيتھولکس ) سے اچھے ہيں "
تيرہ سو چوراسي ميں جان وائيکليف عيسائيت کي داخلي برائيوں کي نشاندھي کرنے کے لۓ محمد کے نام کواستعارے کے طورپر استعمال کرتے ہيں وہ کہتے ہيں "ہم مغرب کے ماحومت "اس سے ان کي مراد کليسا کے عھديداروں کي حرص لالچ ناپسنديدہ اخلاق اور بدسلوکي ہے-
سولھويں صدي ميں عيسائيت ميں ايسے عالم ميں اختلافات عروج پرپہنچے جب ترکوں کا خطرہ بڑھ چکا تھا اور ترکوں نے ہنگري کي بادشاہت کا تختہ الٹ ديا تھا بنابريں اسلام کے خلاف جد وجھد کو بدستور اوليت حاصل تھي اور لوتھر نے اپنے بڑھاپے ميں مونت کروچہ کي کتاب "رد قرآن" کا جرمني ميں ترجمہ کيا تھا- اس زمانے ميں يورپيوں کي نظر ميں اسلام بہت زيادہ طاقتور ہو چکا تھا اور يہ شبہ پيدا ہوگيا تھاکہ خداکا لطف وکرم ترکوں کے شامل حال ہوگيا ہے بنابريں لوتھر نے اس مسئلہ کا جائزہ لينے کوبھي ضروري سمجھا کہ آيا اسلام ميں زيادہ سعادت ہے ياعيسائيت ميں؟ لوتھر نے اپنے اعترافات ميں لکھا ہے کہ ايک بار وہ بھي شک و ترديد کا شکار ہوگۓ تھے اور ايسے گمراہ ہوۓ کہ محمد کو تقريبا پيغمبر تسليم کرليا اور يہ خيال کرنے لگے کہ ترک اور يہودي حقيقي قدوسيت کي راہ ميں قدم اٹھارہے ہيں، ليکن انہوں نے يکايک شيطان کو خود سے دورکرنے ميں کاميابي حاصل کرلي -
يورپ کے خلاف ترکوں کے تمام ترخطروں کے باوجود لوتھر کي نظر ميں پوپ ہي دجال کا مصداق تھے لوتھر کا کہنا تھا کہ دجال عيسائيوں کے درميان ہے - لوتھر کي کتابوں ميں بيروني دشمن، ترک، يہودي اور محمد (ص) ہيں اور انہوں نے ان کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے -
ايسا لگتا ہے کہ لوتھر نے پندرہ سو بياليس ميں پہلي مرتبہ قرآن کا ترجمہ حاصل کرکے اس کا مطالعہ کيا اس کے باوجود وہ محمد کي جانب سے خداے واحد پر يقين اور ربانيت مسيح کے نظرے کو رد کرنے کي وجہ سے انہيں جھوٹے پيغمبر سمجھتے تھے جنہيں خداکي طرف سے نہيں بلکہ شيطان کي طرف سے قرآن ملا تھا لھذا ان ميں اور پوپ ميں کوئي فرق نہيں تھا - لوتھر محمد کو بغير معجزہ کا پيغمبر سمجھتے تھے اور اسي وجہ سے ان کي مذمت کيا کرتے تھے اسي طرح ان کي کاميابيوں کو مکرو فريب وجھوٹ و ريا نيزمھارت و ذھانت کا نتيجہ قرارديتے تھے -
مسلمان اور يہودي توحيد خداوند متعال اور ربانيت مسيح کے حوالے سے عيسائيوں پر اعتراضات کياکرتے تھے لوتھر اس مسئلے کو سمجھتے تھے اسي وجہ سے نظريہ تثليث کي حمايت ميں يہوديوں اورمسلمانوں کے خلاف اپني نفرت کا اظہار کيا کرتے تھے -لوتھر ہميشہ عيسائيوں سے کہا کرتے تھے کہ محمد نے جوکچھ اپني کتاب ميں کہا ہے اس پر توجہ نہ ديں اور اپنے عقيدوں کے پابند رہيں لوتھر کہتے ہيں "تم مسيح ميں مجسم خدا کے عقيدے پرمطمئن اور خوش رہو----گرچہ محمد اور پورپ اپنے انکشافات کو جاري رکھے ہوے ہيں ليکن تم مسيح مصلوب کے عقيدے پرقائم رہو-
مصنفہ: مينوصميمي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں :
پيغمبر اکرم (ص) کے دلنشين پيغامات (حصّہ سوّم)