محمد (ص) يورپ کي نظر ميں
ابھي اھل يورپ کے ذھن سے صليبي جنگوں کي ياديں محو نہيں ہوپائي تھيں کہ ترک آپہنچے اور چودہ سو ترپن ميں قسطنطينيہ فتح کرليا-روزروشن کي طرح واضح ہے کہ ايک ہزار چون عيسوي سے مشرق کے آرتھوڈوکس کليسا اور کيتھولک کليسا مکمل طرح سے الگ ہوگۓ گرچہ انہوں نے چودہ سوانتاليس ميں اتحاد کا معاھدہ کيا ليکن اب اتحاد کا وقت گذر چکا تھا اورچار صديوں کے بعد آرتھوڈوکس کليسا کا مرکزسقوط کے دھانے پر تھا-اس زمانے سے انيس سو اٹھارہ يعني پہلي جنگ عظيم تک يعني سلطنت عثمانيہ کے خاتمے تک ترک قوم پانچ صديوں تک يورپ کے لۓ وبال جان بني ہوئي تھي گرچہ چودہ سو بانوے ميں اندلس پوري طرح سے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گياتھا اور يورپ ميں مسلمانوں کي حکمراني ختم ہوچکي تھي بنابريں سولھويں صدي عيسوي سے يورپ ميں عربوں کا نام ونشان تک نہ تھا اور اسلام کو ترکوں کے نام سے پہنچانا جاتاتھا اسي بناپراس زمانے کي عيسائي دنياميں محمد (ص) کوترک اہريمن کي حيثيت سے جانا جاتاتھا- يہ بات قابل توجہ ہےکہ قسطنطنيہ پر مسلمانوں کے قبضے کے نتيجے ميں مشرقي روم کے مفکرين نے مغربي روم ميں پناہ لي جسکے سبب يونان کے کلاسيکل افکار کا احياء ہوااور تدريجا"اومانيسم "کے نظريات سامنے آنے لگے اسي تبديلي کو رنسينس کا آغازقرارديا جاتاہے اس کے بعد صنعت طباعت کي ايجاد کے نتيجے ميں يورپ ميں عظيم تبديلياں آئيں -ليکن نہ رينيسينس سے نہ اومانيسم سے نہ صنعتي ترقي سے اورنہ ہي مشرق وسطي اور ايران کا سفرکرنے والے سياحوں کي معلومات سے محمد(ص)کي نسبت يورپ کے نظريات ميں کوئي تبديلي آئي اس زمانے ميں بھي محمد (ص) کو اساطيري خدا،مکار ساحر، طالع بين اور دھوکہ بازشخص کے طورپرجانا جاتاتھا يہ ايسے عالم ميں تھا کہ يورپي سياحوں کے سفرنامے اسلامي عقائد منجملہ توحيد اور عبادات کي معلومات سے اٹے پڑے تھے -
محمد (ص ) کي نبوت کے بارے ميں يورپيوں کے نزديک ايک مشہور داستان بحيرہ راھب کي ہے يہ داستان اکثر عيسائي کتابوں ميں مل جاے گي -سرجان مانڈويل لکھتے ہيں کہ محمد ہميشہ اس راھب کے کمرے ميں جايا کرتےتھے وہ لکھتے ہيں کہ محمد (ص) نے راہبوں سے ضروري معلومات حاصل کي تھيں اور اپنے ساتھيوں سے انہيں مرواديا کرتے تھے سرجان مانڈويل کا سفر نامہ اس طرح کي باتوں سے بھرا پڑا ہے يہ سفرنامہ دراصل فرانسيسي زبان ميں ہے اور يورپ کي مختلف زبانوں ميں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے -
بنڈيکٹي راھب ھيگڈن کي کتاب تاريخ عالم کا، تيرہ سو ستاسي،چودہ سوپچانوے اور پندرہ سوستائيس ميں تين مرتبہ انگريزي ميں ترجمہ ہوا ہے-ھيگڈن اپني اس کتاب ميں اس کبوترکي داستان لکھتا ہے جسے محمد (ص) نے سدھايا تھا تاکہ وہ دانے کے لۓ ان کے سرپرپروازکرے اسے وہ روح القدس کہتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ ان پر وحي لاتاہے -ھيگڈن ايک اور داستان لکھتا ہےکہ محمد (ص) کا ايک اونٹ تھا انہوں نے اسے سکھا رکھاتھا کہ صرف ان ہي کے ہاتھ سے چارا کھاے محمد نے اس کي گردن ميں قرآن لٹکا رکھا تھا جب وہ اس اونٹ کے پاس آتے تو اونٹ زانو موڑکربيٹھ جاتا اورمحمد قرآن کو تھام کرکہتے کہ يہ آسماني پيغام ہے -ھيگڈن کي نظرميں جنسي ھوس بھي ايک طريقہ تھا جس کے ذريعے محمد (ص) نے عيسائيت کو کمزور بنانے اور اسلام کو استحکام پہنچانے کا کام کيا-
جان ليڈ گيٹ نے چودہ سو تيس سے چودہ سو اڑتيس کے عرصے ميں اپني نظم لکھي اس نظم کا عنوان ہے "شہزادوں کا زوال" اس نظم ميں ماحومت جھوٹے پيغمبر کے زير عنوان محمد (ص) کو ايسا جادوگر بتايا گيا ہے جس نے اپنے اھداف تک پہنچنے کے لۓ مال دارعورت سے شادي کي اور اس کے پيسے کے بل پر بيزانس کے بادشاہ ھراکليوس سے جنگ کي اور اسکندريہ کي سرحد تک اس کي سرزمينوں پر قبضہ کرليا-جان ليڈ گيٹ نے محمد (ص) کے صرع يا مرگي کي بيماري ميں مبتلا ہونے کي بھي بات کي ہے جس کے بعد قرون وسطي ميں يہ بات عام ہوگئي تھي-اس نظم ميں ايک اور قديمي داستان کا ذکر کيا گياہے يہ داستان رحلت محمد (ص) کے بارے ميں ہے کہ مستي کے نتيجے ميں مرگي کے دورے کے زير اثر محمد(ص) کي موت ہوئي اور کچھ ----نے انہيں کھاليا اسي بنا پر شراب اور سور کا گوشت حرام قرارديا گيا ہے -
يہ بات غورطلب ہےکہ يہ افسانے قرون وسطي ميں گھڑے گۓ ہيں اور بعض عيسائي اديبوں نے بھي اس طرح کے افسانے لکھے ہيں ان سے پتہ چلتاہےکہ اس زمانے ميں عيسائي دنيا کو قرآن کي ذرا سي شناخت نہيں تھي اور جيسا کہ معلوم ہے سولہ سو اننچاس سے قبل يورپ ميں قرآن کا ترجمہ نہيں ہواتھا ہرچند بارہويں صدي عيسوي ميں لاطيني زبان ميں قرآن کا ترجمہ ہوچکا تھا-
رينيسينس کے بعد ايک دوصديوں ميں بعض توھمات کو دورکرنے کي غرض سے عيسائي دنيا ميں فکري سرگرمياں شروع ہوتي دکھائ ديتي ہيں-اسپين کے ايک پادري جان سگوويائي کا خيال تھا کہ جنگ سے اسلام و عيسائيت کے مابين مسائل حل نہيں ہوسکتے انہوں نے دونوں دينوں کے مابين تنازعات کو حل کرنے کي غرض سے ايک ہسپانوي مسلمان کي مدد سے قرآن کا ترجمہ کروايا جو چودہ سو پينتاليس ميں ان کي موت کے بعد ناپيد ہوگيا دراصل ان کے پادري ساتھيوں نے اسےکہيں چھپا ديا تھا-جان سگوويائي نے ايک جرمن پادري نيکولس کولکھا تھا کہ اسلام اور عيسائيت ميں عداوت و دشمني کے خاتمے نيزان کے درميان دوستي قائم کرنےکے لۓ ايک عالمي نشست کي ضرورت ہے-اس زمانے ميں ايسے بھي لوگ تھے جنہيں اسلام و عيسائيت کے اشتراکات کاعلم تھا مسلمانوں کے ہاتھوں قسطنطنيہ کي تسخير کے وقت پوپ کے عھدے پر فائزآئناس سيلويوس نے ترک بادشاہ سلطان محمدفاتح کولکھا تھا "مسلمانوں اور عيسائيوں کے مابين بہت سے مشترکہ امور ہيں جن پر دونوں مذھب کے پيرووں کا اتفاق ہے ،خداے واحد، خلقت عالم، ايمان کي ضرورت، حيات اخروي، جزاوسزا کا نظام اور روح کا ابدي ہونا ايسے امور ہيں جن پر دونوں مذھبوں کا اتفاق ہے اس کے بعد وہ لکھتے ہيں کہ صرف خدا کي ذات وماھيت کےبارے ميں اسلام وعيسائيت ميں اختلاف پايا جاتاہے اس کے باوجود پوپ سلطان محمد سے کہتے ہيں کہ وہ عيسائي ہوجائيں-
ايک نکتہ جس پر عيسائي سخت حيران تھے يہ تھا کہ مسلمان حضرت مسيح کا بے حد احترام کرتے ہيں ہرچند ان کے صليب پر لٹکاۓ جانے کو تسليم نہيں کرتے،يہ امرعيسائيوں کے نزديک صليب کي اھيمت کے پيش نظر مسلمانوں کي جانب سے حضرت مسيح کے اکرام وتکريم کے اقدام کي اھميت کو کم کر سکتا تھا-
قسطنطنيہ پر مسلمانوں کے قبضےکے بعد جو چيزيں عيسائيوں کے درميان رائج ہوئيں وہ ترکوں کي سنگ دلي اور ان کي جنگوں سے عبارت ہيں يورپيوں کي نظر ميں ترکوں کے افعال واعمال اسلام کي تعليمات قرار پاے- ترکوں سے شديد دشمني اس بات کا باعث بني کہ پندرہ سو اٹھاسي ميں کرسٹوفر مارلونے اپنے اشعار ميں ترکوں پر حملہ کرنے کي بناپر تيمورکي تعريف کي ہے اور اپنے ان اشعار ميں تيمورکي زباني ماحومت کو سب وشتم کا نشانہ بنايا ہے وہ اپنے اشعار ميں کہتاہےکہ تيمورنے قرآن کونذرآتش کرنے کا حکم ديا جس کي وجہ سے وہ ايک عيسائي کے روپ ميں ظاہرہوا-
قسطنطنيہ کا واقعہ ان واقعات ميں سےہے جن کا زخم اب بھي ہرا ہے اسي بناپر يہ واقعہ عيسائي ڈراموں اور اشعار ميں فراواني سے ديکھا جاسکتاہے يہانتک کہ شيکسپئر کے ڈرامے ھنري پنجم ميں فرانسيسي بادشاہ کي بيٹي کيٹرين سے بادشاہ يہ کہتاہوادکھائي ديتا ہےکہ "آۆہم ايسے بچے کي بنياد رکھيں جو نيم فرانسيسي اور نيم برطانوي ہواور جو قسطنطنيہ جاکرترکوں کا مقابلہ کرے يہ ايسے عالم ميں ہے کہ ہنري پنجم قسطنطنيہ کے سقوط سے تينتيس سال قبل يعني چودہ سو بيس ميں تھے تاہم شيکشپئر کي مذھبي حس اس قدرقوي ہے کہ وہ يا تو اس تاريخي غلطي کي طرف متوجہ نہيں تھے يا اس کو کوئي اھميت نہيں ديتے تھے انہوں نے يہ ڈرامہ سولہ سو عيسوي ميں لکھا تھا -
مصنفہ: مينوصميمي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں :
پيغمبر اکرم (ص) کے دلنشين پيغامات (حصّہ دوّم)