امام رضا (ع) اور عہد مامون رشید
امام رضا (ع) کی زندگی کے آخری ١٠ سال جو کہ عہد مامون کے ہم زمان تھے تاریخی لحاظ سے اہم ہیں۔ اس اہمیت کو سمجھنے کے لئے ہمیں کچھ ماضی میں جانا ہوگا۔ واقعہ کربلا کے بعد خاندان رسول اور عام مسلمانوں کے درمیان جو رابطہ منقطع ہو گیا تھا ائمہ صادقین (ع) نے اپنے دور مدینہ میں اسلامی درسگاہ قائم کر کے اس کو بحال کر دیا تھا میں یہاں ایک وقت میں ہزاروں طالبِ علم جمع ہوتے تھے۔ لیکن بہت جلد حالات بدل گئے۔ دوسری صدی ہجری کے وسط تک ہارون رشید نے بنی عباس کی سلطنت کو عروج پر پہونچا دیا اور امام موسیٰ کاظم (ع) کی ایک طویل عرضہ کی قید تنہائی میں تشیع کی دنیا میں ایک خاموشی چھانے لگی اور ملوکیت نے واقعہ کربلا کو عوام کے ذہنوں سے مٹانے کی اپنی کوششوں کو تیز کردیا۔ صرف مدینہ اور حجاز کے کچھ حصوں میں فقہا اور دانشوروں کی حد تک اہلبیت کا ذکر محدود ہو گیا۔
ان حالات میں ١٨٣ھ میں امام (ع) ہفتم کی شہادت کے بعد امام رضا (ع) نے اپنی امامت کا اعلان کردیا تھا۔ امین کے قتل کے بعد امام رضا (ع) کے حوالہ سے مامون رشید کے لئے تین راستے تھے۔ (١) اپنے آباء کی پیروی میں امام کے ساتھ وہی سلوک کرتا جو امام کے والد کے ساتھ روا رکھا گیا یعنی قتل کردینا ، لیکن اس میں عوام کے غم وغصہ کا امکان تھا۔ ( ٢) امام (ع) کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا مگر اس میں وہ اپنی سلطنت کے لئے خطرہ سمجھتا تھا یا (٣) پھر امام کو اپنے سیاسی نظام کے استحکام کا ذریعہ بنالیتا، مورخین نے مامون رشید کو خلفائے عباسی میں بطور ایک طاقتور ترین، باہوش، دانشمند اور میانہ رو فرد کے طور پر پیش کیا ہے۔
امین کے قتل کے بعد مامون نے حالات کے تقاضوں کے تحت آخری متبادل صورت پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس کو رو بہ عمل لانے کے لئے مامون نے یہ فیصلہ کیا کہ امام رضا (ع) کو خلافت کی پیشکش کی جائے۔ یہ ایک سیاسی چال تھی، جو شخص جاہ و اقتدار کے لئے اپنے بھائی کو قتل کردے یکایک اتنا انصاف پسند کیسے ہو گیا کہ آلِ محمد (ص) کو خلافت کا حقدار سمجھنے لگا۔ محسن مظفر نے مامون کے اس رویہ اور شیعیت کی طرف جھکاؤ کو ایک بناوٹی اور غیر فطری عمل قرار دیا ہے۔ اس فیصلہ میں مامون رشید کی نیت یہ تھی کہ امام (ع) کو اپنے رنگ میں رنگ لے اور دامن تقویٰ اور فضیلت کو داغدار کردے۔ اگر امام خلافت قبول کرلیں تو وہ اپنے لئے ولی عہد کی شرط پیش کرتا اور اس طرح اپنا استحقاق ثابت کرتا۔ امام رضا (ع) کو خلافت تفویض کرنے کے منصوبہ کو رو بہ عمل لانے کے لئے مامون چاہتا تھا کہ امام کو مرو بلایا جائے جو اس زمانہ میں خراسان کا مرکزی شہر تھا۔ شیخ مفید، شیخ صدوق، مسعودی اور کلینی جیسے مستند حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مامون نے امام رضا (ع) کے نام خط بھیجا اور مرو آنے کی دعوت دی۔ امام (ع) نے عذر ظاہر کیا لیکن مامون کے مسلسل خطوط کے نتیجہ میں امام (ع) نے محسوس کیا کہ مامون اس امر سے دستبردار نہ ہوگا اور آپ نے مدینہ سے مرو سفر کا ارادہ کرلیا۔
محقق: ڈاکٹر میر محمد علی
متعلقہ تحریریں:
سجدہِ شکر میں امام رضا علیہ السلام کی دعا
امام رضا (ع) کی شخصیت معنوی
امام رضاعلیہ السلام اور ولایت عہدی كا منصب
امام رضا (ع) کی ولی عہدی اور تاریخی حقائق
علویوں کے ساتھ عباسیوں کا رویہ