ڈاكٹر حبيب جريري
پرندہ ہميشہ پرندہ رہتا اگر چہ وہ ساري عمر پنجرے ميں بند ہي كيوں نہ رہے۔ عقاب سے اس كي آزادي سلب كي جا سكتي ہے ليكن اس كي حريت كو نہيں چهينا جا سكتا۔ افق كي بلنديوں ميں پرواز كرنا اس كي فطرت ہے اور بلند و بالا چوٹيوں كو سر كرنا اس كي عادت۔ ميں جب بهي ڈاكٹر حبيب جريري كاتذكرہ كرنا چاہتا ہوں ميرے ذہن ميں اسي قسم كي تعبيريں آتي ہيں۔ شايد اب تك پرواز كر چكا ہودشمن كے جال اور نفس كے پنجرے كر توڑ كر عرش كي بلنديوں ميں اڑ چكا ہوگا۔ مجهے نہيں معلوم وہ كس حال ميں ليكن اتنا ضرور جانتا ہوں كہ اس دنيا ميں كوئي قيد اور پنجرہ اتنا مضبوط اور محكم نہيں تها جو ڈاكٹر كي مواج روح كو مقيد كر سكے ۔
ڈاكٹر كي ولادت ١٣١١ بہمن كے مہينے ميں شيراز ميں ہوئي۔ انہوں نے ميڈيسن ميں اپني ڈاكٹريٹ كي ڈگڑي لي اور ١٣٣٧ ميں زہرا قنادي كو اپني شريكہ حيات بنايا۔ ڈاكٹر دنيا كي چار رائج زبانيں جانتے تهے انگريزي، فرانسيسي، عربي اور روسي۔ اور ان كا ايك جرم روسي زبان سيكهنا تها۔
١٣٤٩ ميں حسينيہ ارشاد ميں ان كي آشنائي ڈاكٹر علي شريعتي سے ہوئي اور وہ ڈاكٹركي شخصيت،ان كے افكار اور نظريات كے شيدائي بن گئے۔ ان كي ازدواجگي زندگي كا ماحصل تين بچے ہيں۔
سب كے سب ان كي طرح سچے، ثابت قدم اور پرنشاط۔ تينوں كے نام فريدون، فيروزہ اور سلمان ہيں۔ سلمان سب سے چهوٹے ہيں جو آج كل انجينئر سلمان جريري كے نام سے معروف ہيں۔
ستم روزگار سے انہيں بہت رنج پہنچتا تها۔ دلتنگي كاغم ان كے پورے وجود كو گهيرے ہوئے تها۔ بے عدالتي ان كے لئے ناقابل برداشت تهي اور سماج پر حاكم فقر و فجور ان كي جان كو كهائے جا رہا تها۔ ان كي ذكاوت و ذہانت اس بات كا باعث تهي كہ وہ دوسروں سے زيادہ حكومت وقت كے بارے ميں غور و خوض كريں۔ علمي، ثقافتي، سماجي اور سياسي تمام ميدانوں ميں وسيع مطالعہ نے ان كو اطراف ميں غور فكر پر مجبور كرديا تها۔ اگر چہ وہ شاہ كي فوج ميں كام كرتے تهے ليكن شاہ كا لفظ ان كے لئے بہت اذيت كا باعث تها اور امام خميني كي ياد ان كے فرحت بخش۔ امام خميني سے ان كا لگائو ناقابل بيان تها۔ وہ اپني پر طلاطم روح كو اپنے مراد كے دريائے معارف سے لبريز اور ٹهنڈا كرتے تهے۔ داكٹر صرف بيٹه كر سوچتے رہنے كو كافي نہيں سمجهتے تهے بلكہ ان كي نظر ميں استبداد اور سامراج سے مقابلہ كا تنہا راستہ علي الاعلان اس سے ٹكر لينا تها اسي لئے انہوں نے حكومت وقت كے خلاف لب گشائي كي اور انہيں مقابلہ كي دعوت دي۔ اس طرح جيل ٥ سال كے لئے ان كي مہمان بن گئي۔ قيد خانہ كي مضبوط اور اونچي ديواروں كے پيچهے انہيں پست حكام كي تباہي اور نابودي نظر آرہي تهي اور يہ چيزان كے لئے ايك نعمت اور آرام و سكون كا باعث تهي۔
١٣٣٨ ميں پہلي بار ايك سال تك شاہي جيل ميں جانے تجربہ ہوا ۔ رہائي كے بعد انہيں فوج سے نكال ديا گيا اور ١٣٥٣ ميں دوبارہ گرفتارہوئے ۔ اس بار ١٣٥٧ يعني انقلاب اسلامي كي كاميابي تك قيد رہے۔ شاہ كے قصر ستم كے منہدم ہونے اور اس كے ساته زندان كي زنجيروں كے ٹوٹ جانے كے بعد ڈاكٹر پهر عوام كے درميان ظاہر ہوئے۔ پہلے سے زيادہ با نشاط اور ثابت قدم ہو كر اپنے ہم فكروں سے آملے۔
ڈاكٹر جريري نے انقلاب اسلامي كي كاميابي كو آخري قدم نہيں سمجها بلكہ وہ اس انقلاب كو اسلامي جمہوريہ كي تعمير و ترقي كے لئے پہلے قدم سمجهتے تهے ۔ ان كي نظر ميں چونكہ گزشتہ استبداد ، استعمار اور سامراجيت كي اصل وجہ لوگوں كي جہالت تهي لہٰذا انہوں اس كے خلاف اعلان جہاد كيا اور ''تحريك تعليم و تعلم'' كي بنياد ڈالي اور كچه مدت بعد اسے دوسرے انقلابي افراد كے حوالے كر ديا۔
ايك لمحہ بهي ضائع نہ ہونے پائے اور فورا اٹه كهڑے ہونا چاہيے۔ ڈاكٹر ايران كے سب سے پسماندہ علاقہ يعني سيستان بلوچستان ميں ميئر بن كر گئے جہاں لوگوں نے فقر اور ظالم حاكموں كے ظلم كا سب زيدہ مزہ چكها تها وہ جگہ جہاں لوگ ان كے خلوص،صداقت،محنت اور خدمت كے پياسے تهے ۔لوگ ڈاكٹر كو ميئر صاحب كہہ كر بلاتے تهے ليكن ان كي سادگي اور خلوص نے انہيں ايك پاك اور عوامي انسان بنا ديا تهايعني ايك ايسا انسان جسے صرف ايك فكر تهي صدق دل سے لوگوں كي خدمت۔
خدمت كے لئے ملك كے ايك ايسے علاقہ كا انتخاب جو جغرافيہ اور حالات كے اعتبار سے بالكل نامساعد تها،وہ بهي ايك ايسے شخص كي طرف سے جو علم ودانش ميں باكمال اور تابناك ماضي كا مالك ہو،ان كي صداقت اور خلوص كي روشن دليل ہے۔پهر جب وہ تہران كے مئير بن كر لوگوں كي خدمت كے فرائض انجام دے رہے تهے ايران پر بعثي حكومت كے حملے نے انہيں مغربي سرحدوں كے دفاع پر مجبور كيا اور وہ فوجي لباس ميں ميدان جنگ كي طرف نكل پڑے ۔
١٤ مہر ١٣٥٩ كو يعني جنگ شروع ہونے كے دو ہفتے بعد ڈاكٹروں كي ايك ٹيم اور بہت سے دوسرے لوگوں كے ہمراہ جبہہ كي طرف روانہ ہوگئے اور ان كي شجاعت و جوانمردي كا ايك اور امتحان شروع ہوگيا اور انہوں نے انقلاب ، اسلام اور ملك و ملت كے دفاع كا كارنامہ بڑي خوبصورتي سے انجام ديا اور اسي طرح ہميشہ چمكتے اور دمكتے رہے۔
ان كي تقدير نہيں تهي كہ ميدان جنگ ميں شہيد كئے جاتے بلكہ ان كا اسير ہونا مقدر ہو چكا تها تاكہ اپني روح كچه اور صيقل كريں۔ اسير ہونا بهي ان كے لئے آخري گهڑي نہيں تهي بلكہ ابهي اسے انقلاب اور امام خميني كا تعارف كروانا تها ۔ مصلحت انديشي ان كي زندگي ميں تهي ہي نہيں اور ڈر كو اس كے دل ميں كوئي راہ نہيں تهي۔ كسي جيل ، قيد خانہ اور سزاء ميں طاقت نہيں تهي كہ ان كي زبان پر تالا لگائے يا ان كي فكر كي شمع فروزاں كو گل كرے ۔اب انہيں ہر حال موت كو گلے لگانا تها اب چاہے شاہ كا دربار ہو يا صدام كااور ہر حال ميں اسلام كي تعليمات اور عقائد كي كلاس بپا كرنا تهي چاہے ايران ميں ہو يا بعثي كيمپ ميں۔ اس لئے بعثيوں كے لئے اب ڈاكٹر كا وجود ناقابل برداشت ہو چكا تها لہٰذا ايك دن آئے اور ڈاكٹر كو اپنے ساته لے گئے جب دوسرے كسي قيدي كو خبر تك نہ ہوئي يہاں ريڈ كراس والوں كو بهي پتہ نہ چل سكا ۔ ان كے خيال ميں ڈاكٹر كو لے جاكر شہيد كرديں گے تو سب كچه ختم ہوجائے گا ليكن يہ ايك خيال خام تها ۔ ڈاكٹر كي بلند روح اگر ہمارے بهي ہمارے لئے مشعل راہ ہے اپنے ملك كي تعمير، جہاد، ايثار اور لوگوں كي خدمت كے لئے۔
آي ہمارے ملك ميں جگہ جگہ ڈاكٹر جريري كے حماسے، عوامي خدمت اور ايثار و فداكاري كي يادگار اور آثار نظر آتے ہيں۔ ان كي اہليہ اور صالح اولاد كي طرف پوري قوم كي آنكهيں آج بهي منتظر ہيں كہ ايك دن لوگوں كا كوئي مسيحا اٹهے اور وہ اسے پلكوں پر بٹهائيں اور ملك كي تعمير، ايثار اور عوامي خدمت كي بہار ي ہوا ايك بار پهر سے چلے۔ جنگ كے اختتام اور اسرا كي آزادي كے جو افراد ان كے ساته بعثي حكومت كي قيد ميں وہ بيان كرتے ہيں كہ ڈاكٹر نے وہاں قرآن، نہج البلاغہ كے كلاس لگا ركهے تهے اور سب كے وجود ميں ايك روح پهونك رہے تهے اسي وجہ سي ان كو اور دوسرے كچه اسرا كو دوسروں سے الگ كر ديا گيا اور پهر اس كے بعد ان كا كچه پتہ نہ چل سكا۔ جب وہ تہران كے ميئر تهے تو آبادہ كے كچه افردا نے انہيں خط لكها اور ان سے درخواست كي كہ پاليمنٹ كے انتخابات ميں ان كے نمائندے كي حيثيت سے كهڑے ہوں جس كے جواب ميں انہوں نے لكها تها:
'' ميں نے اپني ساري عمر وطن عزيز كي عوام كي تعمير و ترقي كي آرزو كي ہے اور ہماري تاريخ كے اس حصے ميں جو مستقبل كے لئے ايك سرنوشت ساز اور فيصلہ كن گهڑي ہے، آپ دوستوں كي طرف سے اس ٹيليگرام نے ميري ديرينہ آرزووں كو تازگي بخشي ہے اور آئندہ كي اميدوں كو زندہ كرديا ہے۔ميں نے كبهي مال و مقال سے دل نہيں لگايا، آپ كي طرف سے پہچنے والي محبت اور دوستي كي خوشبو سے ميں واقعا وجد ميں آگيا ہوں۔
بشکریہ : نويد شاہد
متعلقہ تحریریں:
معاشرے میں عدلیہ قانون کی ضامن
بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات
انصاف کا دائرہ
انصاف کی بنیاد
انصاف کی ضرورت