انصاف کا دائرہ
ملکی سطح پر انصاف
کبھی تو کسی نجی تنازعے کا فیصلہ کیا جاتا ہے مثلا پیسے کا تنازعہ، چند مربع میٹر زمین کا جھگڑا، مار پیٹ کا معاملہ وغیرہ۔ لیکن کبھی انصاف زیادہ اہم مسئلے میں نافذ کیا جاتا ہے جس کا تعلق عوام کی زندگی، حقوق اور تقدیر سے ہوتا ہے۔ کبھی کوئی بڑا مالی مسئلہ ہے۔ کچھ لوگوں نے عوام اور فقرا کے سرمائے کی جانب دست درازی کی ہے۔ مثال کے طور پر کسی گاؤں یا شہر میں ایک رقم خرچ کرکے سڑک یا کارخانے کی تعمیر کی جا سکتی ہے جس سے ہزاروں افراد یا ہزاروں خاندانوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ان کے لئے کھیت اور روزگار کے مواقع مہیا ہو سکتے ہیں لیکن کوئی بے ایمان شخص آکر اس پیسے کو ہڑپ لے جس سے یہ سارے کام ہو سکتے تھے۔ ساری رقم لیکر اپنی طمع کو تسکین دینے کی کوشش کرے تو یہ جرم اس سے بہت بڑا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو طمانچہ مار دے البتہ یہ بھی جرم ہے اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اسلام تو "ارش الخدش" یعنی ناخون سے کسی دوسرے کے جسم پر خراش ڈال دینے کو بھی نظر انداز نہیں کرتا تاہم جرائم مختلف اقسام کے ہوتے ہیں۔ بعض جرائم وہ ہوتے ہیں جن کی اہمیت بیحد زیادہ ہوتی ہے۔ جب آپ اس شخص سے نمٹنا چاہتے ہیں جس نے کمال بے رحمی اور بے شرمی سے بیت المال یا عوام کی رقم ہڑپ لی ہے تو اس کے لئے عدالتی شجاعت و اقتدار کی ضرورت ہوگی۔ اگر عدلیہ کے وقار و اعتبار کو ٹھیس پہنچتی ہے تو یہ عوام کی زندگی کے نظام پر لگنے والی بہت کاری ضرب ہوگی۔ اسے بھیانک جرم کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی یہ ضرب خود عدلیہ کے اندر سے لگے اور کبھی باہر سے وار ہو۔
عالمی سطح پر انصاف
خود مختاری و خود اعتمادی کے زیور سے آراستہ اسلامی جمہوری نظام آج عالمی سامراجی نظام کی تسلط پسندی کے خلاف سینہ سپر ہے۔ آج ملت فلسطین کا حق پامال کرنے کے لئے امریکا، اس کے ہمنوا اور دنیا بھر کے صیہونی اور صف اول کے سرمایہ دار اپنی تمام سیاسی و تشہیراتی توانائی کو بروئے کار لاکر چند ملین فلسطینیوں کا گلا گھونٹ دینا چاہتے ہیں، انہیں عالمی معاملات سے یکسر نابود کر دینا چاہتے ہیں۔ جہاں بھی وہ کامیاب ہوئے ہیں انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا ہے اور حکومتوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا ہے لیکن جب ایران کی باری آتی ہے تو ان کی تلوار کند ہو جاتی ہے۔ انہیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کے مخالف ہیں اور اپنے راستے کی اس رکاوٹ کو ختم کر دینے کے در پے ہیں۔ اگر سامراج اپنے مذموم و خباثت آمیز عزائم کے تحت مالی، سیاسی اور تشہیراتی وسائل کے ذریعے ملک کے اندر اپنا کوئی ٹھکانہ بنانے میں کامیاب ہو جائے اور کچھ فریب خوردہ عناصر کو ان کے اپنے ملک کے مفادات کے خلاف استعمال کر لے جائے اور وہ دشمن کی مرضی کے مطابق عمل کریں تو یہ جرم مالی جرم سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ملت ایران کے حق میں ہونے والی اس بے انصافی کا راستہ کون روکے؟ اس کے لئے شجاعت و ارادے اور قوت و طاقت کی ضرورت ہے۔
بشکریہ : خامنہ ای ڈاٹ آئی آڑ
متعلقہ تحریریں:
عدلیہ کے فرائض
اسرائیل تباہي کے دہانے پر
انقلاب اسلامي کے خلاف استکبار ي منصوبہ
امریکہ اور عوامي نفرت
اسلامي انقلاب سے دشمني کي اصل وجہ