ابوالفرج رونی
ابوالفرج رونی برصغیر ( پاک و ہند ) کے مشہور فارسی شاعر گزرے ہیں ۔ ان کا پورا نام ابوالفرج بن مسعود تھا اور وہ رونہ کے رہنے والے تھے ۔ رونہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جگہ موجودہ ضلع لاہور کا ایک قصبہ ہوا کرتا تھا ۔ آج اس قبصے کے متعلق کوئی مستند معلومات دستیاب نہیں ہیں اور کسی کو بھی صحیح طور پر یہ نہیں معلوم کہ یہ " رونہ " کہاں واقع تھا اور اس قصبے کا وجود کب ختم ہوا ۔ عوفی " لب الالباب " میں لکھتا ہے کہ " مولد و منشاء او خطہ لوہور بود ( اس کی جای پیدائش اور منشاء لاہور کا علاقہ تھا ) ۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اصل میں " رونہ " لاہور کا علاقہ نہیں تھا بلکہ یہ ایران کے شہر نیشاپور کے قریب ایک جگہ کا نام ہے ۔ ایران کے شہر قذوین کے رہنے والے مرزا محمد کا یہ کہنا ہے کہ اوپر دیۓ گۓ دونوں بیانات غلط ہیں ۔
عام طور پر خیال یہ کیا جاتا ہے کہ ابوالفرج کے گاؤں کا نام رونہ یا رون ہو سکتا ہے اور شاید اسی نسبت سے لفظ " رونی" سامنے آیا ۔ مسعود سعد سلمان جو کہ ابوالفرج بن مسعود کے ہم عصر تھے ، انہوں نے اپنی شاعری میں ابوالفرج کو "رونی" کہہ کر مخاطلب کیا ہے ۔ اپنے ایک شعر میں مسعود سعد سلمان لکھتے ہیں کہ
ری رونی ! ای طرفہ بغدادی
دارد نشستگاہ تو بغداد من
رونی کی تاریخ پیدائش کے بارے میں بھی کسی کو کوئی معلومات نہیں ہیں ۔ ان کے دور اور عمر کا اندازہ ان کے ہم عصر شعراء سے لگایا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر مسعود سعد سلمان جو رونی کا ہم عصر تھا اور عمر میں رونی سے چھوٹا تھا ۔ ان کے حالات زندگی بھی کسی کو معلوم نہیں بس اتنا معلوم ہو سکا کہ ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مرکزی شہر لاہور میں گزرا تھا ۔
رونی نے اپنے زمانے کے بادشاہوں کے قصائد تو ضرور لکھے مگر معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان کے قصائد کو کوئی خاص پذیرائی نہیں مل سکی تھی کیونکہ ان کی شاعری سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی زندگی تنگ دستی میں گزری ۔ اگر انہیں بادشاہان وقت کی طرف سے پذیرائی ملی ہوتی تو وہ معاشی بدحالی کا شکار نہ رہتے ۔ کتاب " لب الالباب " کے مطابق اوحدالدین محمد انوری جو خود قصیدہ گوئی کا بادشاہ گزارا ہے ، رونی کا بہت بڑا مداح تھا اور رونی کے لکھے ہوۓ " دیوان رونی " کو اپنی نظر کے سامنے رکھتا تھا ۔ ظہیر فارابی بھی رونی سے متاثر معلوم ہوتا ہے جس کا اندازہ فارابی کی شاعری میں شامل ایک مضمون سے لگایا جا سکتا ہے ۔ رونی دیوان شاعر تھے اور ان کے دیوان میں قصائد کی تعداد زیادہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ایک قصیدہ گو شاعر کہنے کو ترجیح دینی چاہیۓ ۔ رونی کے کلام میں غزلیں اور رباعیات بھی ملتی ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے ۔ ابوالفرج رونی کی تاریخ وفات کے بارے میں بھی کسی کو کوئی خاص معلومات نہیں ہیں بس اندازہ یہی لگایا جاتا ہے کہ وہ 490 ہجری میں اس جہان سے کوچ کر گۓ ۔
تحریر : سید اسداللہ ارسلان
متعلقہ تحریریں:
حکیم سنائی
نیما یوشیج
امیر دولت شاہ
اوحدالدین محمد بن محمد " انوری "
ناصر خسرو قبادیانی