نیما یوشیج
نیمایوشیج کا اصل نام اسفندیاری اور تخلص نیما تھا ۔ والد کا نام ابراہیم نوری تھا ۔ نیما 1274 ہجری شمسی میں مازندران کے ایک گاؤں یوش میں پیدا ہوۓ ۔ ان کے والد کھیتی باڑی اور گلہ بانی کیا کرتے تھے ۔ نیما کی ابتدائی زندگی انہی کوہستانی دیہاتی ماحول میں گڈریوں اور چرواہوں کے درمیان گزری ۔ یہ وہ لوگ تھے جو دن کو تو پہاڑوں سے دور چراگاہوں میں نکل جاتے اور سردی کی طویل راتیں انہی پہاڑوں کے اوپر آگ کے گرد حلقہ زن ہو کر گزارتے تھے ۔ نیما کا بچپن اسی فضا میں گزرا ۔ یہیں بہ قول خود مکتب کے اخوند کی ماریں کھائیں جو اس قدر سخت اور متشدد تھا کہ نیما کے نازک پاؤں درخت کی جڑ سے باندھ دیتا اور پتلی لمبی چھڑی سے مارتا تھا ۔
تہران میں آ کر نیما نے سینٹ لوئی اسکول میں داخلہ لیا اور فرانسیسی زبان بڑی محنت سے سیکھی ۔
وہیں اپنے استاد نظام وفا کی تشویق پر شعر کہنا شروع کیا ۔ نمیا عربی بھی جانتے تھے ۔ نمیا یوشیج کو فارسی میں نظم کا بادشاہ کہا جاتا ہے ۔ آزاد شاعری کے چند نمونے گو کہ نیما سے پہلے بھی ملتے ہیں مگر نیما نے اس باب میں جس ابتکار ، اجتہاد اور ذہانت کا ثبوت دیا اس کی مثال کمیاب ہے ۔
فرانسیسی زبان سے وابستگی اور خود اپنی فطری ذہانت کے باعث نیما نے ایک ایسے طرز کو شعر فارسی میں رواج دیا جس نے نوپردازی کے لیۓ متعدد نۓ راستے کھولے ۔
نیما کی شاعری میں جو ابہام نظر آتا ہے یہ اس کے معانی کی تہہ داری کا ثبوت ہے ۔ خرداد ماہ 1325 ہجری شمسی بمطابق 1946 عیسوی میں ایران کے ادیبوں کی پہلی کانفرنس میں نیمایوشیج نے جو تقریر کی تھی اس کا مفہوم کچھ یوں تھا ۔
" میری آزاد شاعری میں وزن اور قافیہ ایک اور حساب سے متعین ہوتے ہیں ۔ اس میں مصروں کا چھوٹا بڑا ہونا کسی ہوس یا فنتاسی کی بنا پر نہیں ۔ میں بےنظمی کے لیۓ بھی کسی تنظیم میں اعتقاد رکھتا ہوں ۔ میرا ہر کلمہ ایک دقیق قاعدے کی رو سے دوسرے کلمے سے مربوط ہوتا ہے ۔ میرے لیۓ آزاد شاعری کرنا پابند شاعری کی نسبت مشکل تر امر ہے ۔ ":
" میری شاعری کا جوہر میرا ذاتی دکھ ہے ۔ میرے عقیدے کے مطابق اصلی شاعر کو اس جوہر کا مایہ دار ہونا چاہیۓ ۔ میں اپنے رنج [ کے تنقیہ ] کے لیۓ شعر کہتا ہوں ۔ ہیت، کلمات، وزن، قافیہ، ہمیشہ میرے لیۓ ایسے ہتھیار رہے ہیں کہ میں انہیں بدلنے پر مجبور رہا ہوں تاکہ یہ میرے اور دوسروں کے دکھوں کی بہتر نمائندگی کر سکیں ۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں ایک دریا کی مانند ہوں کہ جو کوئی جہاں سے بھی چاہے بغیر کسی اضطراب کے اس کے پانی سے استفادہ کر سکتا ہے ۔ " ( بحوالہ مجموعہ اشعار نیما یوشیج ص 19 )
نمیا کی نظموں میں سب سے اہم نظم " افسانہ " گنی جاتی ہے جو 1922 عیسوی میں لکھی گئی ۔ شعری قالب میں وزن و قافیہ کے تضرفات ، ابہام اور نۓ اور انوکھے اسالیب کے باعث نیما اسی طرح بدف تنقید بنا جس طرح راشد ۔ نیما نے 1338 ہجری شمسی بمطابق 1959 عیسوی میں وفات پائی ۔
تحریر : ڈاکٹر تحسین فراقی
کتاب کا نام : حسن کوزہ گر ( شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور )
متعلقہ تحریریں:
میرزا تقی امیر کبیر
خیام نیشابوری
مہرداد اوستا بروجردی
مير زاده عشقي
حکیم نظامی گنجوی، فارسی کا ایک بڑا شاعر
حکیم نظامی گنجوی، فارسی کا ایک بڑا شاعر (حصّہ دوّم)
ابوریحان البیرونی
عظیم مسلمان سائنسدان " ابو علی سینا "
بابا طاھر عریاں
خواجہ حافظ شیرازی