اتحاد، آگاھي اور احتیاط
آج ميں جو بات حکومتي اعليٰ عہدیداروں اور اسلامي حکومت کے اہم منصبوں پر فائز افراد سے کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ان کي پوري کوشش یہ ہوني چاہئے کہ آپس ميں باہمي تعاون کا مظاہرہ کریں کیونکہ اہم عہدیداروں کا اتفاق اور اتحاد، متوسط اور درمیاني سطح کے حکام کیلئے دستورالعمل بن جائے گا، اعليٰ عہدیداروں کا گلا و شکوہ ، شکایتیں کرنا اور بے جا قسم کے اعتراضات اٹھانا نظام اسلامي کي مصلحت ميں نہيں ہے البتہ ہماري خوش نصیبي ہے کہ نظام اسلامي کے صف اول کے حکام ان باتوں کا خیال رکھتے ہيں اور ان افراد ميں شامل ہيں کہ ہدايت الہي جن کے شامل حال ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ شامل حال رہے گي لیکن بہت توجہ اور احتیاط سے قدم اٹھانا چاہئے ،آج دشمن ہمارے قول و فعل کي چھوٹي سي غلطي سے بھي بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
ميں یہ نصیحتیں دوستوں کو اس لئے کرتا ہوں کہ نظام اسلامي کے اعلي مقاصد پورے ہوں، حکومت اسلامي ميں موجود رہبريت کے دست وبازو یہي قانوني ادارے ہيں یعني پارلیمنٹ، عدلیہ اورصدارتي کابینہ (مجریہ)۔
اگر ہم اسلامي عدالت کي نصیحت کرتے ہيں تو ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمارے عہدیدارمالي خرد برد ميں مبتلا نہ ہوں یا اقرباء پروري اور بعض کو بعض پر بلاوجہ تر جیح دینے سے اجتناب کریں ،ان باتوں کے اجرا کے لئے ہمارے پاس تین اداروں کے علاوہ کچھ نہيں ہے۔ ميں نے کئي بار صدارتي کابینہ اور پارلیمنٹ کو اس بات کي تاکید کي ہے کہ آپ اپنے يہاں موجود خلاف ورزیوں،کمزوریوں اور سستي و کاہلي کو خود ہي دور کریں تاکہ عدالتوں کي نوبت ہي نہ آئے ۔ ميں نے محکمہ عدلیہ کے عہدیداروں سے بھي کہا ہے کہ وہ مختلف سطح پرقانون کے اجرا اور عام اور سستا انصاف لوگوں تک پہنچانے کیلئے ایسا نظام تشکیل دیںکہ دوسروں کو مداخلت کا موقع نہ ملے اور نہ اپنے بے جا تنقید کے ذریعہ اورنہ ہي دشمن مختلف اعتراضات اٹھا کر محکمہ عدلیہ کي حیثیت کو خراب کرسکے اور انصاف پہنچانے والے اس ادارہ کا وقار اور اسکي حیثیت عوام کي نگاہوں ميں گرا سکیں ۔
ميں ہمیشہ پارلیمنٹ کے ممبران کو یہي نصیحت کرتا ہوں کہ عوام کي مصلحتوں اور انکي ضروریات کو زیر بحث لائیں، اسي میدان ميں کوششی ںجاري رکھیں اور آئین کے صحیح و پائیدار اجراء ميں کوتاہیوں خواہ وہ صدارتي کابینہ ميں ہو ں یا محکمہ عدلیہ ميں ، انھیں بر طرف کریں تاکہ اس مملکت کو صحیح طور پر چلایا جا سکے ۔ اس ملک کي بہتري اسي ميں ہے کہ تینوں ادارے اپني ذمہ داريوں اور فرائض پر عمل کریں ۔رہبريت کے دست و بازو اور اس کے احکام کے اجرا کے قانوني راستے یہي ادارے ہيں البتہ اگر یہ تینوں ادارے مشکلات کو حل نہ کر سکے یا نہيں چاہتے کہ مسائل حل ہوں تو انھیں حل کرنے کیلئے خود عوام کي طاقت سے استفادہ کیا جائے گا اورميري خواہش ہے کہ وہ وقت کبھي نہ آئے کہ جب رہبریت یہ احساس کرے کہ عوامي طاقت کو مشکلات کے حل کیلئے مید ان ميں لایا جائے اور کسي بڑے کام کو انجام دیا جائے لہذا بہتریہ ہے کہ انھیں تینوں اداروں سے (مشکلات کے حل کیلئے ) استفادہ کیا جائے ۔
ميں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ موجودہ عہدیدار ملک کي مشکلات کو حل کرسکتے ہيں ۔ہميں معلوم ہے کہ ترقي کي راہ ميں مشکلات ہيں اور ان مشکلات ميں اقتصادي مشکلات سر فہرست ہيں البتہ اقتصاد کے علاوہ دوسرے شعبوں ميں بھي مسائل ہيں جیسے علمي،ثقافتي اور اخلاقي شعبہ جات،کہ ان تمام مشکلات کو حل کرنا حکومت کي ذمہ داري ہے۔ حکومت اور ان تین بڑے اداروں کے عہدیدار اس آئین کے ذریعے ان کمزوریوں کو اور مشکلات کو دور کرسکتے ہيں جیسا کہ اشارہ کیا ہے کہ قضاوت اور حکم کا محور ہمارا آئین ہے ۔
عوام نے اپنا امتحان دے دیا ہے۔ ہماري عوام بہت اچھي ہے، عوام جہاں بھي احساس کرتي ہے کہ یہ کام اس کا وظیفہ ہے وہاں ایمانداري او رفدا کاري کے ساتھ اس کے لئے اقدام کرتي ہے البتہ عوام بھي کبھي اپني توقعات کے اظہار سے پرہیز کرتي ہے۔ جب دیکھتي ہے کہ مصلحت نہيں اور مشکلات زیادہ ہيں (تواپني توقعات سے صرف نظر کرتي ہے )جنگ کے زمانے ميں بھي ہم نے دیکھا ہے اور جنگ کے بعد آج بھي ملت کي فداکاري کا مشاہدہ کر رہے ہيں ۔
ولي امر مسلمین حضرت آیت اللہ سید علي خامنہ اي کے خطابات سے اقتباس
متعلقہ تحریریں:
وقت کي ضرورت
ایک حسّاس مرحلہ
اسلامي نظام کے بنیادي اصول
دشمن کي دشمني کو سمجھیں
انقلاب اسلامي کے اندروني مسائل