حق گو درویش
بیان کیا جاتا ہے کہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں ایک ایسے بزرگ تھے جن کی دعا قبول ہوتی تھی۔ ایک دن حجاج نے ان بزرگ کی خدمت میں درخواست کی کہ میرے حق میں دعا فرمائیے۔ حجاج کی یہ بات سن کر بزرگ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا، اے اللہ ! اس شخص کو موت دے دے ۔
حجاج یہ دعا سن کر بہت حیران ہوا اور شکایت کے لہجے میں بولا، آپ نے میرے حق میں یہ کیسی دعا مانگی ؟ بزرگ نے فرمایا، تیرے اور مسلمانوں کے لیے یہی دعا سب سے اچھی ہے۔ وہ اس لیے کہ جلد موت آ جائے گی تو تیرا نامہ اعمال مزید سیاہ نہ ہوگا اور عام مسلمانوں کے لیے یوں کہ تو مرجائے گا تو انھیں ظلم وستم سے نجات مل جائے گی ۔
٭ اے زبردست ستاتا ہے جو کمزوروں کو
کیا ہی اچھا ہو کہ اس ظلم سے تو باز آئے
لائق فخر نہیں تیری یہ شان و شوکت
ایسے جینے سے تو اچھا ہے کہ تو مر جائے
وضاحت: اس حکایت میں حضرت سعدی نے مردان خدا کا پاکیزہ کردارپیش کیا ہے۔ تقویٰ اور نیکی کا یہ تصور کہ انسان گوشہ عافیت میں بیٹھ جائے بالکل غلط ہے ۔ ایک سچے مومن کا عمل یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہے ۔
پیشکش : سیّد اسد الله ارسلان
متعلقہ تحریریں:
بیوقوف بادشاہ
بے تدبیر بادشاہ
بادشاہ اور قیدی
شیخ سعدی کی حکایت نمبر (3)
بادشاہ کا خواب
شیخ سعدی کی حکایت نمبر (2)
شیخ سعدی کی حکایت نمبر (1)
ایرانی ادبیات کی قدر و قیمت
ایرانی ادبیات کی اہمیت
خط میخی کا ارتقاء