روز عاشوره میں امام زین العابدین پر غشی کا طاری ہونا
اگر امام حسین علیہ السلام اپنی زندگی میں امام زین العابدین علیہ السلام کو اپنا وصی نہ بناگئے ہوتے تو زمین وآسمان نہ رہتے۔ یہ ضروری ہے کہ حجت ِخدا ہر وقت رہے۔ خلق سے پہلے بھی حجت خدا، بعد میں بھی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ولی اُٹھتا نہیں جب تک کہ دوسرے کو اپنا قائم مقام نہ بنا لے۔ آئمہ طاہرین میں یہی رہا۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام قید خانے میں ہیں اور زہر دے دیا گیا ہے اور آپ کی حالت بس قریب المرگ پہنچ چکی ہے۔ تیسرے دن آپ زمین سے اُٹھ نہیں سکتے تھے۔ لیٹ کر ہی اشاروں سے نمازیں ہورہی ہیں۔ ایک غلام تھا جو مقرر کیا گیا تھا کہ دروازہ اس وقت تک نہ کھولنا جب تک یہ مر نہ جائیں۔ یہ کھڑا ہوا ہے دروازے پر۔یہ تیسرے دن کا واقعہ ہے۔ اس کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان یکایک میرے سامنے آیا۔ وہ اتنا حسین تھا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے چودہویں رات کا چاند ہو۔ اُس نے حکم دیا کہ دروازہ کھول دو۔ میں نے کہا کہ بادشاہ کا حکم نہیں ہے۔
اُس نے کہا کہ ہٹتا کیوں نہیں۔ میرا باپ دنیا سے جارہا ہے، میں اُس کی آخری زیارت کیلئے حاضر ہوا ہوں۔ چنانچہ غلام ایک طرف ہٹا۔ وہ جوان آگے ہوا، دروازہ خود بخود کھلا۔ وہ داخل ہوا اور دروازہ پھر بند ہوگیا۔ اس کو دیکھتے ہی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ہاتھ اُٹھادئیے اور سینے سے لگا لیا۔ یہ کیوں؟ یہ اس لئے کہ زمین حجت ِ خدا سے خالی نہ رہ جائے۔
امام حسین علیہ السلام بھی آئے اپنے فرزند بیمار کے پاس۔ امام زین العابدین پر عالمِ غشی طاری ہے۔ آپ کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہوچکا۔ صبح سے اب تک آپ اس وقت آئے ہیں جب علی اصغر کو بھی دفن کرچکے۔ آخری رخصت کیلئے بیبیوں کے خیمے میں آئے ہیں اور آواز دی کہ میرا آخری سلام قبول کرلو۔ چنانچہ زینب نے پاس بلالیا۔ بھائی سے لپٹ گئیں۔ بھیا! کیا میرے سر
سے چادر اُترنے کا وقت آگیا؟ کیا میرے بازوؤں کے بندھنے کا وقت آگیا؟ امام حسین نے آپ کو تسلیاں دیں۔ آپ نے فرمایا: بہن! اتنی مضطرب نہ ہو۔ اگر تم اتنی مضطرب ہوجاؤ گی تو ان بیبیوں کو شام تک کون لے جائے گا؟ تمہیں سنبھالنا ہے، خدا کے بعد یہ بیبیاں تمہارے حوالے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے بچے تمہارے حوالے ہیں۔ آپ نے وصیتیں کیں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: بہن! ذرا مجھے میرے بیمار بیٹے تک پہنچا دو۔
جنابِ زینب امام زین العابدین علیہ السلام کے خیمے میں لے گئیں۔ خدا کسی باپ کو بیٹے کی یہ حالت نہ دکھائے۔ عالمِ غشی میں پڑے ہیں۔ صبح سے بخار کی جو شدت ہوئی ہے تو آنکھ نہیں کھول سکے امام زین العابدین علیہ السلام۔ امام حسین پاس بیٹھ گئے، بیٹے کی شکل دیکھی۔ حالت ملاحظہ کی، آوازدی: بیٹا زین العابدین ! باپ کو آخری مرتبہ دیکھ لو۔ اب میں بھی جارہا ہوں۔ امام زین العابدین کی آنکھ نہ کھلی۔ شانے پر ہاتھ رکھا۔ شانہ ہلایا، آنکھ نہ کھلی۔ آواز دی، آنکھ نہ کھلی۔ ایک مرتبہ نبض پر ہاتھ رکھا، بخار کی شدت معلوم ہوئی۔ انجام یاد آگیا کہ تھوڑی دیر کے بعد کیا ہونے والا ہے؟ آخر باپ کا دل تھا، حسین رونے لگے۔ گرم گرم آنسو جو چہرئہ بیمار پر پڑے، آپ نے آنکھیں کھول دیں۔ دیکھا کہ ایک شخص سر سے پاؤں تک خون میں ڈوبا ہوا سامنے بیٹھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر عابد ِ بیمار پریشان ہوگئے۔
امام حسین نے فوراً کہا: بیٹا! گھبراؤ نہیں۔ اور کوئی نہیں ، تمہارا مظلوم باپ ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کو خیال آیا کہ میرے باپ کے اتنے دوست اور رفقاء تھے، یہ کس طرح زخمی ہوگئے؟ آپ پوچھتے ہیں: بابا! حبیب ابن مظاہر کہاں گئے؟ فرمایا: بیٹا! وہ مارے گئے۔ کہا مسلم ابن عوسجہ کیا ہوئے؟ کہا کہ وہ بھی مارے گئے۔ اس کے بعد پوچھا : پھر میرے بہادر اور جری چچا عباس علمدارکیا ہوئے؟ فرمایا: دریا کے کنارے بازو کٹائے سورہے ہیں۔ عرض کرتے ہیں: بابا! پھر بھائی علی اکبر کہاں ہیں؟ فرماتے ہیں: بیٹا! کس کس کا پوچھو گے؟ وہ بھی نہیں، صرف میں رہ گیا اور تم رہ گئے ہو۔
میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں آخری وصیت کروں اور اسرارِامامت سپرد کردوں۔ اس کے بعد کچھ فرمایا کہ جس کا تعلق اسرارِ امامت سے تھا اور ایک مرتبہ اُٹھے کہ بیٹا! میں جارہا ہوں۔ اب نہیں آؤں گا۔ دیکھو! ماں بہنوں کا ساتھ ہے بازاروں میں جانا ہے دربار میں جانا ہے، جلال میں نہ آجانا ۔
نام کتاب: روایات عزا
مصنف: علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ
متعلقہ تحریریں:
امام زین العابدین علیہ السلام اخلاق کی دنیامیں
امام زین العابدین (ع) اورفقراء مدینہ کی کفالت
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام
امام زین العابدین علیہ السلام کا یوم ولادت
حضرت امام زين العابدین (ع) کا یوم شہادت
امام سجاد (ع) کی عبادت
امام زین العابدین (ع) کے اخلاق وکمالات
امام سجاد(ع) واقعہ کربلا ميں
حضرت امام زین العابدین(ع) کی ولادت