• صارفین کی تعداد :
  • 2856
  • 11/8/2010
  • تاريخ :

انسان اور توحید تک رسائی ( حصّہ ششم )

الله

واضح سی بات ہے کہ جب افراد کے درمیان قدرتی اختلاف اور تفاوت پایا جاتا ہے تو جس میں زیادہ قوت و صلاحیت ہو گی وہی زیادہ قوت و صلاحیت جذب کرنے میں کامیاب ہو گا۔ مثلاً جو شخص زیادہ علمی صلاحیت کا مالک ہو گا‘ وہ زیادہ شیفتگان علم کو اپنی طرف مائل کرے گا اور زیادہ افراد کو مسخر کرے گا‘ اسی طرح جس میں فنی صلاحیت زیادہ ہو گی اتنے ہی دوسرے لوگ اس کے ماتحت رہتے ہوئے اس کی عقل و فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کی راہ میں حرکت کریں گے اور اس کے مطیع و فرماں بردار ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید جہاں معاشرے میں "رب و مربوب" کی نفی کرتا ہے‘ وہاں قدرتی اختلاف اور تفاوت نیز تخلیقی اعتبار سے مختلف صلاحیتوں کے درجات کی حقیقت کا بھی معترف ہے اور "ایک دوسرے کے کام آنے کی بنیاد پر رابطے" کی تائید کرتا ہے۔

اھم یقسمون رحمة ربک ن نحن قسمنا بینھم معیشتھم فی الحیوة الدنیا و رفعنا بعضھم فوق بعض درجات لیتخذ بعضھم بعضا سخریا و رحمة ربک خیر مما یجمعون (سورئہ زخرف‘ آیت ۳۲)

"کیا پروردگار کی رحمت (نبوت) کو انہوں نے تقسیم کیا ہے؟ (کیا یہ ان کے ہاتھ میں ہے کہ جسے چاہیں خلعت نبوت عطا کر دیں اور جسے نہ چاہیں نہ کریں۔ ایک روز ہم ہی نے معیشت کو ان کے درمیان تقسیم کیا تھا اس طرح سے کہ دوسرے لوگوں کو مسخر کر سکیں اور آپ کے پروردگار کی رحمت (نبوت) ان چیزوں سے بہتر ہے جنہیں یہ لوگ جمع کرتے ہیں۔"

اس آیت شریفہ سے ایک نکتہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ مراعات کا اختلاف یک طرفہ نہیں بعض لوگوں کے دو گروہ نہیں ہیں۔ ایک قدرتی مراعات کا حامل گروہ اور دوسرا قدرتی مراعات سے محروم گروہ‘ اگر ایسا ہوتا تو ایک طبقہ مطلق تسخیر کرنے والا اور دوسرا گروہ تسخیر ہونے والا ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر قرآن کی تعبیر یوں ہونی چاہئے تھی:

و رفعنا بعضھم فوق بعض درجات لیتخذ وھم سخریا

"ہم نے بعض کو بعض کے مقابلے میں درجات دیئے ہیں تاکہ جنہیں درجات دیئے گئے ہیں وہ ان لوگوں کو مسخر کر سکیں‘ جنہیں درجات نہیں دیئے گئے۔"

جبکہ قرآن کی تعبیر یوں ہے:

و رفعنا بعضم فوق بعض درجات لیتخذ بعضھم بعضا سخریا

"ہم نے بعض کو بعض کی نسبت درجات سے نوازا تاکہ بعض لوگ بعض کو اپنے لئے مسخر کر سکیں۔"

یعنی سب درجات سے بہرہ مند ہیں اور سب ایک دوسرے کو اپنے لئے مسخر کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں چونکہ درجات طرفینی نوعیت کے ہیں لہٰذا تسخیر بھی طرفینی حیثیت کی حامل ہو گی۔

دوسرا نکتہ "سخریا" کے لفظ سے مربوط ہے‘ یہاں پر اس لفظ میں سین پر پیش کی حرکت دی گئی ہے جس کا یہی معنی ہے جو بیان کیا گیا‘ لیکن قرآن کی دیگر دو آیات میں سین پر زیر دی گئی ہے۔ ایک سورئہ مومنون کی آیت نمبر ۱۰۹ اور ۱۱۰ میں کہ جہاں اہل دوزخ کو خطاب کیا گیا ہے اور اہل ایمان کے ساتھ ان کے ناروا برتاؤ کی مذمت کی گئی ہے:

انہ کان فریق من عبادی__ فاتخذ تموھم سخریا__ و کنتم منھم تضحکون

اور دوسری سورئہ مبارکہ "ص" کی آیت ۶۲ اور ۶۳ ہے کہ جس میں خود اہل دوزخ کی زبان سے کہا گیا ہے کہ:

مالنا لا نری رجالا کنانعد ھم من الاشرار اتخذ نا ھم سخریا ام زاغت عنھم الابصار

قرآئن سے بھی یہ بات ثابت ہے اور خود میں نے بھی جہاں تک تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے (مجمع البیان‘ کشاف‘ تفسیر امام‘ بیضاوی‘ روح البیان‘ صافی‘ المیزان) تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ "سخریا"کے عین پر جو کسرہ آئی ہے وہ "تمسخر اڑانے" کے معنی میں ہے۔ صرف تفسیر مجمع البیان نے یہ ناقابل اعتنا قول نقل کیا ہے کہ بعض کے مطابق "سخریا" کا لفظ "غلام بنائے جانے" کے معنی میں ہے اور بعض نے مطلقاً یہ کہا ہے کہ "سخریا" سین پر کسرہ کے ساتھ ہمیشہ "تمسخر اڑانے" کے معنی میں استعمال ہو گا اور سین پر ضمہ کے ساتھ "مسخر" کے معنی میں۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ "تسخیر اور مسخر" کا کیا معنی اور مفہوم ہے۔

یہ دو لفظ قرآن کریم میں کئی مرتبہ آئے ہیں اور رام کرنے اور رام ہونے کے معنی میں ہے۔ قرآن کریم میں (حضرت داؤد علیہ السلام) کے لئے چاند‘ سورج‘ شب و روز‘ سمندر‘ نہریں اور پہاڑ‘ حضرت سلیمان۱کے لئے ہوا اور انسان کے لئے جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے اسے مسخر کرنے کی بات کی گئی ہے۔ واضح سی بات ہے کہ ان تمام موارد میں مقصد یہ ہے کہ ان امور کو اس انداز میں پیدا کیا گیا ہے کہ انسان کے لئے رام اور زیر استفادہ ہوں۔ ان تمام آیات میں تمام تر گفتگو انسان کے لئے ان اشیاء کے رام ہونے کے بارے میں ہے نہ کہ ان اشیاء کے لئے انسان کے رام ہونے کے بارے میں۔ لیکن زیربحث آیت میں دو طرفہ طور پر انسان کے لئے انسان کے مسخر اور رام ہونے کی بات کی گئی ہے۔

لفظ "تسخیر" کے مفہوم میں اکراہ و اجبار کا معنی پوشیدہ نہیں ہے مثلاً عاشق‘ معشوق کے لئے‘ مرید‘ مراد کے لئے‘ شاگرد‘ استاد کے لئے اور عام لوگ اکثر مایہ ناز اور ممتاز شخضیات کے لئے مسخر ہونے کے باوجود مجبور نہیں ہوتے‘ لہٰذا حکمائے اسلام نے بڑی ہوشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے "فاعلیت بالتسخیر" کی اصطلاح کو "فاعلیت بالجبر" سے جدا کیا ہے۔ البتہ ہر اجبار میں اپنا مطیع بنانا موجود ہے لیکن ہر مطیع بنانے میں اجبار کا پہلو نہیں ہے۔

بشکریہ اسلام ان اردو ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

توحید صفاتی

 توحید افعالی

 خداشناسی (پہلا سبق)

خداشناسی (دوسرا سبق)

خداشناسی (تیسرا سبق)

خداشناسی (چوتھاسبق)

خداشناسی (پانچواں سبق)

خدا شناسی (چھٹا سبق)

قادر متعال کا وجود

عقیدۂ  توحید