• صارفین کی تعداد :
  • 2640
  • 11/8/2010
  • تاريخ :

انسان اورتوحید تک رسائی (حصّہ پنجم )

الله

ایک ایسا اسلامی معاشرہ جو طبقاتی تفاوت سے پاک ہو یعنی جس میں نہ امتیازی سلوک‘ نہ محرومیت ہو اور نہ ہی وہ معاشرہ اجتماعی امور سے لاتعلق ہو‘ کیوں کہ یہ بھی ایک طرح کا ظلم اور بے انصافی ہے۔ اختلاف و تفاوت اور ترجیحی و امتیازی سلوک کے درمیان فرق ہے جیسا کہ کائنات کے تکوینی نظام میں پایا جانے والا اختلاف اس میں حسن و جمال‘ تنوع‘ پیش رفت اور ارتقاء و کمال کا باعث ہے لیکن اسے ترجیحی یا امتیازی سلوک نہیں کہتے۔

اسلامی نظام مملکت امتیازی سلوک کا مخالف اور دشمن ہے نہ کہ اختلاف اور تفاوت اسلامی معاشرہ‘ مساوات‘ برابری اور بھائی چارہ کا معاشرہ ہے لیکن یہ منفی نہیں بلکہ مثبت مساوات ہے۔ منفی مساوات سے مراد اشخاص کی قدرتی ترجیحات کو حساب میں نہ لانا اور برابری و مساوات کے لئے ان کے اکتسابی امتیازات کو سلب کرنا ہے جب کہ مثبت مساوات سے مراد عوام کے لئے مساوی امکانا ت اور وسائل فراہم کرنا‘ ظالمانہ اور موہوم امتیازات سلب کرنا اور ہر شخص کو اس کی کمائی اور محنت کا مالک بنانا ہے۔

منفی مساوات اس مساوات کی مانند ہے جسے ایک داستان میں بیان کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی کوہستانی علاقے میں ایک ظالم شخص رہتا تھا اور وہاں سے گزرنے والوں کو اپنا مہمان بنا کر پذیرائی کرتا تھا۔ سونے کے وقت مہمان کو ایک مخصوص بستر پر سونا ہوتا تھا۔ میزبان کے غلام مہمان کو اس مخصوص بستر پر سلا دیتے تھے۔ اگر اتفاق سے مہمان کا بدن اس بستر سے چھوٹا اور نہ بڑا ہوتا تو اسے سونے کی اجازت دے دی جاتی لیکن افسوس اس بدنصیب مہمان پر کہ جس کا جسم بستر کے مساوی نہ ہوتا۔ اگر اس کا جسم بستر سے بڑا ہوتا تو پاؤں کی طرف سے آری کے ذریعے اسے بستر کے برابر کر دیا جاتا اور اگر چھوٹا ہوتا تو دونوں طرف سے اسے اتنا کھینچا جاتا کہ وہ برابر ہو جاتا‘ بہرحال اس کا انجام واضح ہوتا۔

لیکن مثبت مساوات اس دلسوز اور مہربان استاد کی مانند ہوتی ہے جو تمام شاگردوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے۔ اگر سب کے جواب مساوی ہوں تو سب کو ایک جیسے نمبر دیتا ہے اور جوابات میں اختلاف ہو تو ہر ایک کو اس کے ا ستحقاق کے مطابق نمبر دیتا ہے۔ اسلامی معاشرہ ایک قدرتی معاشرہ ہے نہ کہ امتیازی اور منفی مساوات کا معاشرہ۔ اسلام کی تھیوری‘ صلاحیت کے مطابق کام اور کام کے مطابق استحقاق پر استوار ہے۔

امتیازی معاشرہ وہ معاشرہ ہے جس میں انسانوں کا باہمی رابطہ دوسرے کے استحصال پر استوار ہوتا ہے یعنی کسی سے جبراً فائدہ اٹھانا اور دوسروں کے کام اور زحمت کے نتیجے میں بعض افراد کا زندگی گزارنا۔ لیکن ایک طبیعی اور قدرتی معاشرے میں کسی بھی قسم کا ناجائز فائدہ اٹھانا اور کسی دوسرے شخص پر اپنی زندگی کا بوجھ ڈالنا پسندیدہ ہے۔ انسانوں کے درمیان رابطہ "متقابل تسخیر" کا رابطہ ہے سب پوری آزادی اور اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے ساتھ کوشش اور جدوجہد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خدمت میں لگے ہیں اور سب ایک دوسرے کے کام آ رہے ہیں یعنی باہمی خدمت کا نظام حکم فرما ہوتا ہے۔

بشکریہ اسلام ان اردو ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

توحید صفاتی

 توحید افعالی

 خداشناسی (پہلا سبق)

خداشناسی (دوسرا سبق)

خداشناسی (تیسرا سبق)

خداشناسی (چوتھاسبق)

خداشناسی (پانچواں سبق)

خدا شناسی (چھٹا سبق)

قادر متعال کا وجود

عقیدۂ  توحید