• صارفین کی تعداد :
  • 5350
  • 9/19/2010
  • تاريخ :

شمیم کی بلّی

بلّی

ایک لڑکی تھی ننّھی منّی سی
موٹی سی اور تھُن مُتھنّی سی
نام تو اُس کا تھا شمیم افشاں
پر اسے لوگ کہتے تھے چھیماں
اُس نے پالی تھی اِک بڑی بلّی
جتنی وہ خود تھی اتنی ہی بلّی
جس طرف وہ قدم اٹھاتی تھی
بلّی بھی اس کے ساتھ جاتی تھی
یہ جو سوتی تو وہ بھی سوتی تھی
یہ جو روتی تو وہ بھی روتی تھی

ایک دِن جب وہ مدرسے آئی

ساتھ بلّی کو اپنے لے آئی

چھیماں کمرے میں آ کے بیٹھ گئی

بلّی بھی دم دبا کے بیٹھ گئی
ماسٹر جی نے آ کے کمرے میں
دیکھا عینک لگا کے کمرے میں
نظر آئی انہیں وہاں بلّی

کہاں وہ مدرسہ ، کہاں بلّی

بولے "بی خالہ آپ ائی ہیں
کیسے تشریف آج لائی ہیں؟"
پہلے تو بلّی نے سلام کیا
اور پھر جھک کے یوں کلام کیا

"میں بھی پڑھنے جناب آئی ہوں

ساتھ اپنے کتاب لائی ہوں"
بولے سب "خالہ جان کیا کہنے
اللہ اللہ یہ شان کیا کہنے"
ہو رہی تھی ابھی یہ بات وہاں
آ گئے واں پہ ایک چوہے میاں
اب نہ وہ مدرسہ رہا نہ کتاب
اب تو بلّی تھی اور چوہوں کے خوِاب
تھے وہ شاگرد یا کہ تھے چوہے
نظر آئے سبھی اُسے چوہے
اِس کے ہاتھ اُس کے سر کو کاٹ لیا
اور تو اور ماسٹر کو کاٹ لیا
مدرسہ کیا تھا اِک طویلا تھا

بلّی چوہوں کا ایک میلا تھا

 

شاعر کا  نام : صوفی غلام مصطفی  تبسم

پیشکش : شعبۂ تحریر و پشکش تبیان


متعلقہ تحریریں:

خوانچے والا

گپ شپ

ٹوٹ بٹوٹ

کالا ریچھ

کھیرا