• صارفین کی تعداد :
  • 2392
  • 4/11/2010
  • تاريخ :

رسالت کا گُلِ معطر 

حضرت فاطمہ(س)

قرآن کے ساتھ بي بي کي انسيت:

حضرت فاطمہ (س) کو قرآن سے ايسي اُنسيت تھي کہ آپ (س) کام کاج کے دوران اور جو  پيستے ہوئے بھي قرآن کي تلاوت ميں مشغول رہتيں۔ اس اُنسيت کا گھر والوں پر ايسا اثر تھا کہ آپ کي خادمہ بي بي فضہ نے بيس سال تک قرآن سے ہٹ کر بات نہيں کي اور ہر سوال کا جواب بھي قرآن کي آيت سے ديتي رہيں۔ روايات کے مطابق يہ اُنسيت محشر ميں بھي نظر آئے گي اور بي بي فاطمہ (س) ميدانِ حشر ميں بھي تلاوتِ قرآن ميں مشغول ہوں گي اور جنت ميں بھي تلاوت آيات کے ساتھ وارد ہوں گي۔ آپ (س) نے حضرت علي (ع) کو وصيت کي تھي کہ قبر کي پہلي رات ميرے سرہانے قرآن کي زيادہ تلاوت کرنا۔

خوشروئي اور خوش اخلاقي:

حضرت فاطمہ (س) نے مشترکہ زندگي ميں ہميشہ اپنے شريکِ حيات حضرت علي (ع) سے کشادہ روئي، بشاشت اور مسکراتے ہوئے ملاقات کي تاکہ علي (ع) کے دل کے آئينے سے غبارِ غم و اندوہ صاف ہو جائے اور گھر اور خاندان کا ماحول تازگي اور فرحت کا احساس لئے ہوئے ہو اور يکسانيت اکتاہٹ کا باعث نہ بن جائے۔ ہر مرد و عورت پر اس خوش اخلاقي کي تاثير کا اندازہ بخوبي جناب فاطمہ (س) کے اس قول سے لگايا جا سکتا ہے کہ آپ (س) نے فرمايا: ’’مومن کے سامنے خوشروئي سے پيش آنے کا اجر جنت ہے۔‘‘

مذہبي سوالات کے جواب:

لوگوں کے فکري سوالوں کے جوابات دينا آپ (س) کي شخصيت کے ايک اور فکر انگيز پہلو کي نشاندہي کرتا ہے۔ يہ خصوصيت ايک ايسے دور ميں جلوہ گر ہو رہي تھي کہ جب عورتوں کو نہ صرف يہکہ دوسروں جيسا ايک عام آدمي نہيں سمجھا جاتا تھا بلکہ انسان بھي نہيں سمجھتے تھے اور لڑکيوں کو باعثِ ننگ و  عار اور خاندان کے لئے باعثِ شرم سار کرتے تھے۔ آپ (س) نہ صرف يہ کہ گھر کے کام کاج کيا کرتي تھيں بلکہ علوم و معارفِ الہي کا مرجع بھي تھيں۔ علمي حوالے سے سوائے امام  (ع) کے کسي اور شخصيت سے ان کا مقابلہ نہيں کيا جا سکتا تھا اور اخلاقي حوالے سے اور ميل جول کے لحاظ سے ان کا مقابلہ صرف ان کے والد سے کيا جا سکتا تھا۔ آپ (س) نے لوگوں کے ساتھ  روابط کا طريقہ اپنے بابا سے سيکھا تھا خصوصاً وہ لوگ جو دين کے حوالے سے ابہام کا شکار ہوں۔

تحرير: ليليٰ تفقُّدي

ترجمہ و تلخيص: سجاد مہدوي


متعلقہ تحریریں:

فدک اور فضائل حضرت فاطمہ زھرا(س)

نبی اکرم(ص) کے غم میں گریہ و بکا

 زندگي نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا