مردوں كے فرائض (حصّہ دهم)
مردوں كے فرائض
مردوں كے فرائض (حصّہ دوّم)
مردوں كے فرائض (حصّہ سوّم)
مردوں كے فرائض (حصّہ چهارم)
مردوں كے فرائض (حصّہ پنجم)
مردوں كے فرائض (حصّہ ششم)
مردوں كے فرائض (حصّہ هفتم)
مردوں كے فرائض (حصّہ هشتم)
مردوں كے فرائض (حصّہ نهم)
اعتراض اور بہانہ جوئي
بعض مردوں كو اعتراض كرنے اور عيب نكالنے كى عادت ہوتى ہے _ گھر ميں داخل ہوتے ہى اعتراضات كا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے _ چھوٹى چھوٹى باتوں كے لئے بھى مسلسل بولتے رہتے ہيں مثلا فلاں چيز وہاں كيوں ركھى ہے ؟ فلاں چيز اپنى جگہ پر كيوں نہيں ہے ؟ يہاں پا جامہ كيوں پڑا ہے ؟ يہاں گندگى كيوں ہے ؟ كھانا تيار ہونے ميں دير كيوں ہوئي ؟ كھانے ميں نمك كم ہے كتنى با ركہا ہے چكھ كے ديكھ ليا كرو _ فلاں چيز كيوں نہيں پكائي؟ آج سلاد كيوں نہيں بنايا و سالن ميں ہرا دھنيا كيوں نہيں ڈالا_ ہرى مرچيں دستر خوان پر كيوں نہيں آئيں چٹنى كيوں نہيں بنائي، حوض كا پانى كيوں گندہ ہے _ گلدان كو يہاں سے ہٹاؤ _ ہزار وقعہ كہا ايش ٹرے كو ميز پر ركھا كرو _ آخركتنى بار كہا جائے كيسے كہا جائے و غيرہ و غيرہ اور اس قسم كے سينكڑوں چھوٹے بڑے اعتراضات كرتے رہتے ہيں _
حتى كہ بعض مرد اس سلسلے ميں اس قدر سختى سے كام ليتے ہيں كہ خود اپنا اور اپنے گھر والوں كا سكول و چين حرام كرديتے ہيں _ بلكہ بعض تو اس كى خاطر شادى شدہ زندگى كے مقدس پيمان كو بھى متزلزل كرنے پر آمادہ ہو جاتے ہيں _
ہم اس بات كو تسليم كرتے ہيں كہ مرد كو گھر امور ميں دخل دينے كا اور اچھا برا بتانے كا حق ہے اور اس كتاب كے پہلے حصہ ميں خواتين كو نصيحت كى جا چكى ہے كہ مرد كے اس حق كو مانيں اور اس كى دخل اندازيوں كے مقابلے ميں كسى رد عمل كا اظہار نہ كريں ليكن مرد كو جو خاندان كا سرپرست اور منيجر ہے احتياط سے كام لينا چاہئے سوجھ بوجھ اور تدبر كو ملحوظ ركھنا چاہئے _ اگر گھر كے امور ميں دخل اندازى كرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے كہ عاقلانہ اور صحيح طريقہ اختيار كرے تا كہ اس كى بات مؤثر ثابت ہو _
چونكہ مرد كو اتنى فرصت نہيں ہوتى كہ گھر كے تمام امور ميں دخل دے اور اصولى طور پر اسے اس سلسلے ميں كوئي مہارت بھى نہيں ہوتى اس لئے صلاح اسى ميں ہے كہ امور خانہ دارى كا كل اختيار اپنى بيوى كے سپرد كر دے اور اس سلسلے ميں اسے پور ى آزادى دے كہ اپنے سليقے اور ذوق كے مطابق گھر كا انتظام چلائے _ اگر اس سلسلے ميں اس كے كچھ خاص نظريات ہوں تو صلاح و مشورہ كے طور پر، نہ كہ زور زبردستى اور حكم كے طور پر، اپنى بيوى كو بتادے اور اس سے كہے كہ اس كے سليقے اور نظريے كہ بھى لحاظ ركھے _ بيوى كو جب اپنے شوہر كے ذوق كا علم ہو جائے تو اگر وہ عقلمند اور مدبر ہے اور گھر اور زندگى سے دلچسپى ركھتى ہے تو اسے چاہئے كہ كوشش كرے كہ اپنے شوہر كى مرضى و خوشى كا خيا ل ركھے _ اور اگر گھر كے بعض امور ميں شوہر كى رائے كو مناسب نہ سمجھے تو نہايت نرمى و ملائمت سے اور مناسب الفاظ ميں اپنے شوہر سے اس كا ذكر كر دے _ ايسى صورت ميں مرد كا احترام باقى رہے گا اور اس كى شخصيت مجروح نہيں ہوگى اور ايك حد تك اس كى رائے مان لى جائے گى _ كيونكہ اكثر خواتين اس صورت ميں مرد كى دخل اندازيوں كو تو قبول كر ليتى ہيں ليكن اگر اعتراضات كى شكل ميں اور دائمى طور پر ہو تو نہ صرف يہ كہ اس كا كوئي اثر نہيں ہوتا بلكہ اس كا نتيجہ برعكس نكلنے كا بھى امكان ہے _ كيونكہ بيوى آہستہ آہستہ شوہر كے مسلسل اعتراضات كى عادى ہو جاتى ہے اور اس كو اہميت نہيں ديتى _ ايسى صورت ميں شوہر كى شخصيت اس كى نظر ميں بے وقعت ہو جاتى ہے اور اس كى باتوں پر توجہ نہيں ديتى _ حتى كہ بجا اور بہت اہم اعتراضات كو بھى درخور اعتنا نہيں سمجھتى _ اپنے دل ميں سوچتى ہے كہ جو بھى كام كروں گى آخر اس پر اعتراضات اور جھڑ پ تو ہونى ہى ہے، لہذا كيا ضرورت ہے كہ اس كى رضامندى حاصل كرنے كيلئے زحمت اٹھاؤں _ اس كى تو عادت ہى اعتراضات كرنے اور عيبب نكالنے كى ہے، جتنا كرے كرنے دو _ رفتہ رفتہ گھر دارى اور شوہر كے كاموں كى طرف سے سرد مہرى برتنے لگتى ہے، بعض اوقات انتقام كى غرض سے اسى كى طرح وہ بھى اعتراض اور عيب جوئي كرنے لگتى ہے _
ايسى صورت ميں گھر كا ماحول، جسے سكون و آرام كا مركز ہونا چاہئے دائمى كشمكش كا شكار ہو كر ميدان جنگ ميں تبديل ہو جاتا ہے _ ممكن ہے مسلسل اعتراضات اور جھگڑوں سے اتنا تنگ آجائے كہ ايسى زندگى پر عليحدگى كو ترجيح دے اور شادى شدہ زندگى كے تانے بانے بكھر جائيں _ بيوى خواہ كتنى ہى عاقل اور بردبار ہو بالآخر مسلسل اعتراضات اور تحقير سے تھك جاتى ہے.
مثل كے طور پر ذيل كے واقعہ پر توجہ كيجئے :
ايك شخص نے پولى چوكى ميں رپورٹ درج كرائي كہ اس كى بيوى دو مہينے ہوئے لڑكر اپنے باپ كے گھر چلى گئي ہے _ اس شخص كى بيوى نے بتايا كہ ميرے شوہر كو گھر كے كاموں ميں ميرا طريقہ كارپسند نہيں ہے _ كھانا پكانے اور گھر كے انتظامات كے سلسلے ميں ہميشہ ميرى تحقير كيا كرتا ہے اس لئے ميں اس كے گھر سے آگئي ہوں _ اس كى باتيں سنتے سنتے ميرے كان پك گئے _ (1)
مرد كو يہ نكتہ دھيان ميں ركھنا چاہئے كہ گھر كے امور كى تنظيم اور گھر كا انتظام عورت سے مخصوص ہے اور يہ اس كى ذمہ دارى ہے _ اس كے اس حق كو سلب نہيں كرنا چاہئے كہ وہ ايك بے ارادہ مشين بن كر رہ جائے _ بلكہ اس كو مكمل آزادى و اختيار دينا چاہئے تا كہ اپنے ذوق و سليقے كو بروئے كار لائے اور شوق و دلچسپى كے ساتھ امور خانہ دارى كو انجام دے _ يہ بات مصلحت سے بعيد ہے كہ مرد اس سلسلے ميں سختى اور ہٹ دھرمى سے كام ليں اور بہانہ تراشياں كريں _ كيونكہ گھر كا سكون و چين اور باہمى ميل محبت تمام چيزوں پر مقدم ہے _
1_ روزنامہ اطلاعات 5 مئي سنہ 1972