محمد بن ابی عمیر
محمد‘ زیاد کے بیٹے‘ آپ کی کنیت ابو احمد ازدی ہے۔ آپ کو اکثر اپنے والد کی کنیت سے ہی مشہور ہیں۔ آپ امام موسیٰ کاظم ‘ امام علی رضا ‘امام محمد تقی کے اصحاب میں سے ہیں اور 217ئھ میں فوت ہوئے۔ شیعہ و سنی علماء نے آپ پر اطمینان کیا ہے۔
آپ اصحاب اجماع اور اصول اربعماة میں سے ایک اصول کے مئولف بھی ہیں۔ آپ اپنے زمانے کے عابد ترین اور پرہیز گار ترین افراد میں سے تھے۔
حافظ ‘ مشہور سنی عالم دین‘ قحطان کے لوگوں کی عدنان پر برتری میں ابن ابی عمیر کا نام لیتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے۔
محمد بن ابی عمیر حدیث کو بیان کرنے میں نہایت دقت سے کام لیتے تھے۔ باوجود اس کے کہ آپ نے اہل سنت علماء سے بھی بہت کچھ سنا تھا لیکن کہیں بھی ان سے نقل نہیں کیا۔ تاکہ آئمہ کا کلام ان کے کلام سے مل نہ جائے۔ ہارون الرشید نے آپ کو مجبور کیا کہ امام کاظم کے کچھ شیعوں کے نام بتائے یا کسی شہر کے قاضی کے منصب کو قبول کرے لیکن آپ نے اس کی ان تجاویز سے ہرگز اتفاق نہ کیا۔ اسی لئے اس نے آپ کو قید میں بند کر دیا اور تازیانے مارے گئے۔ اسی دوران آپ کی بہن نے آپ کی 94جلد کتابوں کو زمین میں چھپایا کہ جو بعد میں ضائع ہو گئیں۔ آپ انتہائی عبادت گزار تھے بعض اوقات صبح کی نماز کے بعد سجدے میں سر رکھتے اور ظہر کے وقت اٹھاتے۔
ابن ابی عمیر بھی ایک تاجر اور دولتمند شخص تھے جب چار سال کے بعد جیل سے نکلے تو آپ کی تمام جمع شدہ ثروت ختم ہو چکی تھی۔ اس وقت ایک شخص کہ آپ کا مقروض تھا اس نے اپنے گھر کو بیچا اور ایک ہزاردرہم آپ کے لئے لایا لیکن آپ نے وہ رقم لینے سے انکار کر دیا اور کہا بے شک مجھے ایک درہم کی بھی ضرورت ہے لیکن امام صادق نے فرمایا‘ مقروض شخص کو قرض کی وجہ سے اپنے گھر سے نہیں نکالنا چاہئے۔
آپ کی بعض کتب میں الاحتجاج فی الامامة‘ الکفروالایمان‘ اختلاف الحدیث وغیرہ شامل ہیں ابوبصیر‘ ابان بن عثمان اور جمیل دراج‘ جیسی بزرگ شخصیات آپ کے اساتذہ میں سے ہیں اور ابوعبداللہ برقی‘ ابراہیم بن ہاشم اور محمد بن عیسیٰ وغیرہ جیسوں نے آپ سے روایت کو سنا ہے۔
اسلام ان اردو ڈاٹ کام
متعلقہ تحریریں:
اسماء بنت عمیس
شیخ طوسی