اور اب سورۂ یوسف کی پینتیسویں آیت خدا فرماتا ہے
اور اب سوره یوسف کی پینتیسویں آیت خدا فرماتا ہے :
" ثمّ بدالہم مّن بعد ما راوا الایات لیسجننّہ حتّی حین "
( یعنی ) جب انہوں نے [ یوسف (ع) کی ] پاکیزگی کی تمام نشانیاں اور شواہد و ثبوت دیکھ لئے تو بھی ان کی نظر میں یہی ( مناسب) لگا کہ ان کو ایک مدت کے لئے قید میں ڈال دیں ۔
عزیزان گرامی ! اس آيت میں بظاہر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ طاغوتی حکومتیں یا دنیا کے حکام ، چاہے وہ عزیز مصر کی مانند بڑی حد تک انسانیت پر یقین رکھتے ہوں ،حکومت و اقتدار کے زعم میں انصاف سے دور نکل جاتے ہیں ، عام لوگ ما تحت ملازمین ہوں یا غلام اور کنیزیں ہوں، افسرون اور آقاؤں کے رحم و کرم پر ہی ہوتے ہیں آقاؤں کے گناہ کا خمیازہ بھی کمزور طبقوں کو بھگتنا پڑتا ہے یہ کل بھی تھا اور آج بھی ہوتا ہے ، آیت کے مطابق زلیخا ہویا زلیخا کی میہمان مصر کی دوسری شریف زادیاں ، عزیز مصر ہو یا اس کے مشیر و اہل خاندان دوسرے افراد ،ان لوگوں نے ، زلیخا کا خطاکار اور یوسف کا بے قصور ہونا تمام شواہد اور علامتوں کے تحت سمجھ لیا تھا پھر بھی فیصلہ یہی کیا کہ عزیز مصر کی آبرو محفوظ رکھنے کے لئے کچھ مدت کے لئے یوسف (ع) کو جیل میں ڈال دیا جائے تا کہ درباری چہ میگوئیوں سے نجات مل جائے اور لوگ اس واقعہ کو بھول جائیں گویا ذاتی وقار کے سامنے انصاف حتی انسانیت بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی، بے گناہ کو سزا دینا اور خطاکار کو آزاد چھوڑدینا اہل طاغوت کا قدیم شیوہ ہے ۔
اردو ریڈیو تہران
متعلقہ تحریریں:
سورہ یوسف ۔ع۔ (31) ویں آیت کی تفسیر
سورہ یوسف ۔ع۔ (30) ویں آیت کی تفسیر