• صارفین کی تعداد :
  • 3317
  • 3/11/2009
  • تاريخ :

سورہ یوسف  ۔ع۔ (30) ویں  آیت کی تفسیر

قرآن الکریم

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

اور اب سورۂ یوسف  (ع) کی تیسویں آیت ، ارشاد ہوتا ہے :

" و قال نسوۃ فی المدینۃ امرات العزيز تراود فتہا عن نّفسہ قدشغفہا حبّا انّا لنریہا فی ضلل مّبین "

اور شہر کی عورتوں نے ( زلیخا کی ملامت کرتے ہوئے آپس میں ) کہنا شروع کردیا : عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اپنی طرف رجھانے میں لگي رہتی ہے اس جوان کا عشق اس کے دل میں راسخ ہوچکا ہے ہماری نظر میں وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہے ۔

عزیز مصر نے واقعہ کو لوگوں تک پہنچنے پر پابندی لگانے کی کوشش کی تھی کہ ناموس کی بدنامی نہ ہو اور کوئی زلیخا کی نازیبا حرکت سے آگاہ نہ ہونے پائے لیکن ،جیسا کہ واقعہ کے وقت دوسرے لوگوں کا وہاں موجود ہونا قرآن کے انداز بیان سے واضح ہے ، بات شہر میں عام ہوگئی خصوصا" خواتین کے درمیان ایسی غیر ذمہ دار شخصیتیں بھی پائي جاتی ہیں جو رازداری کے ساتھ ایک بات پوری آبادی میں گھر گھر پھیلا دیتی ہیں چنانچہ زلیخا کا حسن یوسف (ع) پر فریفتہ ہوجانا ، مخفی نہیں رہ سکا اور شہر کی عورتوں میں زلیخا کے خلاف چرچے پھیل گئے کہ وہ اپنے جوان غلام کے عشق میں مبتلا ہوکر اپنی ہوس مٹانے پر کمر بستہ ہے جو یقینا" ایک شریف خاتون کو زیب نہیں دیتا یہ عزيز کی بیوی کی بڑي بھول ہے البتہ انہیں یہ بھی پتہ چل چکا تھا کہ زلیخا کا معشوق کوئی عام جوان نہیں ہے ۔

غلام ہونے کے باوجود ایک امین و غیرتمند جوان ہے اور یقینا" ایسا ہی ہوگا کہ اس پر اس کی مالکن ، سن و سال کی بھی پروا کئے بغیر فریفتہ ہو گئی ہے لہذا ان کے دلوں میں بھی دیدار کی طلب پیدا ہوجانا ایک فطری بات تھی چنانچہ انہوں نے جب نوک زبان سے کام لیا تو زلیخا نے ان کے لب و لہجے میں چھپے زہر میں رشک وحسد کی چھبن کو محسوس کرلیا کہ یہ مذمت یونہی نہیں ہے اس میں بھی جلن کا جذبہ کارفرما ہے ۔

سامعین ! یہاں ایک قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ جناب یوسف ( ع) کی اس داستان میں دو مقامات پر " عشق یوسف ( ع) کے سلسلے میں حسد اور جلن کا جذبہ پوری شدت سے نمایان نظر آتا ہے ایک جگہ یوسف (ع) کے لئے باپ کا عشق دیکھ کر بھائیوں کے حسد کا ذکر ہے جہاں یوسف (ع) کے بھائیوں نے خود اپنے باپ یعقوب (ع) کی پدرانہ محبت کو " ضلال مّبین " یعنی کھلی گمراہی سےتعبیر کیا ہے " انّ ابانا لفی ضلال مّبین " جبکہ یہ عشق پدری ایک پاک جذبہ ہے اور نہ صرف ایک باپ بلکہ وقت کے نبی کے لئے یہ کہنا ایک بڑی جسارت ہے ۔دوسری جگہ مصر کی عورتوں نے عشق یوسف ( ع) میں گرفتار زلیخا کے لئے ، زبان حسد میں کہا ہے " انّا لنریہا فی ضلال مّبین " اور یہ تعبیر شاید شادی شدہ زلیخا کے عاشقانہ جذبے کے تحت بالکل صحیح ہو مگر اس بات کی بھی ترجمان ہے کہ مصر کی عورتیں عزیز کی بیوی کے جذبۂ عشق کی بنیادوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں ، عشق مادی ہو یا معنوی ، جب تک انسان تجربے سے نہ گزرے عشق کا درک کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے ۔

اور اب زیر بحث آيات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ :

حق بہرحال کبھی نہ کبھی آشکار ہوکر رہتا ہے اور جو مجرم ہے اگر توبہ نہ کرے تو کسی نہ کسی دن ضرور رسوا ہوتا ہے اسی لئے گناہ سے استغفار ضروری ہے ۔

حق بات اگرچہ قبول کرنا سخت اور نقصان دہ ہو قبول کرلینا چاہئے تا کہ ذلت اٹھانا نہ پڑے عزيز مصر نے ، بیوی کے بر خلاف حقیقت کو سمجھنے اور قبول کرنے کی جرات دکھائی اور جناب یوسف کو بے گناہ سمجھ کر ، ولود بے لفظوں میں سہی بیوی کو معاف کرنے کی خواہش کی اور بیوی کو خطاکار قرار دے کر استغفار کی نصیحت کی جو ان کی حق پسندی کی دلیل ہے ۔

دوسروں کی برائیاں دیکھیں اور سنیں تو ان کی پردہ پوشی کریں کیونکہ خدا عیب پوش ہے اور عیب پوشی پسند کرتا ہے ۔

عورت اور مرد کے ناجائز تعلقات اور معاشقے ہر زمانہ میں ناپسند رہے ہیں اسی لئے مصر کی عورتوں نے زلیخا کی مذمت اور ملامت کی ہے اور اس کو گمراہی سے تعبیر کیا ہے ۔

گناہ پر پردہ ڈالنے سے بھی گناہ نہیں چھپتا آشکار ہوجاتا ہے اور انسان کو معاشرے میں ذلت اٹھانا پڑتی ہے اسی لئے تاکید ہے کہ گناہ سے پہلے اس کے انجام پر نگاہ کرلینا ہر انسان کا فریضہ ہے ۔

                        اردو ریڈیو تہران