• صارفین کی تعداد :
  • 4130
  • 4/11/2009
  • تاريخ :

عظمت دوجہاں محمد اور انسانی حقوق(حصہ اول)

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

موجودہ انسانی مصائب سےنجات ملنےکی واحد صورت یہی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   اس دنیا کےحکمران (رہنما) بنیں ۔ یہ مشہور مغربی محقق و مفکر جارج برناڈشاہ کا قول ہےاور یہ نبی اکرم کی ذات والاصفات کےبارے میں غیر متعصب اور غیر مسلم محققین اور مفکرین کی بےشمار آراء میں سے ایک ہے ۔ جارج برناڈ شاو ان لوگوں میں سے ہیں جو نبی اکرم  (ص) کی نبوت پر ایمان نہیں  لائے پھر بھی وہ آپ کی عظمت کو تسلیم کرتا دکھائی دیتا ہے۔ آپ کی سچائی اور صداقت کا اعتراف صرف عرب تک محدود نہیں  رہا بلکہ ساری دنیا کےدانشور اور مفکر جو اسلام کے ماننےوالےبھی نہیں  ہیں وہ بھی حضور کی عظمت و رفعت کا برملا اعتراف اور آپ کی عمدہ تعریف پر مجبور ہیں ، کارلائل ، نپولین ، رائٹر ، ٹالسائی ، گوئٹے، لینن پول اور دیگر بےشمار ہندو دانشور آپ کی شان میں رطب اللسانہیں، غیر مسلم دانشوروں کو مختلف آفاقی اور الہامی وغیر الہامی ، مذہبی تعصب کےباوجود وہ پیغمبر اسلام کو تمام پیغمبروں اور مسلمین میں کامیاب ترین پیغمبر اور مصلح تسلیم کرنا اور انسان کامل ماننا ہے۔ یہ ہےعظمت رسول کا ایک پہلو۔

آپ کا نام مبارک اور ان کی تعریف کا ذکر نہ صرف قرآن حکیم میں ہے بلکہ تمام آسمانی کتابوں میں بھی آپ کا تذکرہ آیا ہے۔

 ہم مسلمانوں کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عظمت و صفت ، حرمت و تقدس ، رفعت وناموس کےخلاف کسی بھی قسم کا سمجھو تہ یا چپ سادہ لینا تو دور کی بات ہے بلکہ حقیقت حال یہ ہے کہ آپ کی شان کے خلاف سوچ کا ایک لمحہ بھی ہماری دینی حمیت و غیرت کےمنافی ہونے کے ساتھ ساتھ کسی مسلمان کا دائرہ کفر اور ارتداد میں داخلہ کےلیےکافی ہوتا ہے۔ ہمارےعقیدے اور ایمان کےمطابق ایسا کوئی بھی شخص خواہ وہ کتنا ہی متقی اور پرہیز گار مسلمان ہی کیوں نہ ہو اور اندہ درگاہ رب العالمین اور ہمیشہ کےلیےجہنم کا ایندھن بننے کا سزاوار ٹھہرتا ہےاور ہم مسلمانوں کےنزدیک نبی اکرم کی ذات مبارکہ ہمارےایمان و عقیدہ کی پہلی بنیادی اساس ہونےکےساتھ ساتھ بعد از بزرگ توئی کا نعرہ حق و صداقت ہے یہ ہے دوسرا پہلو۔

سوال پیدا ہوتا ہےکہ کیا حقوق انسانی یا آزادی صحافت کی آڑ میں عالمی سطح پر معتبر تسلیم شدہ ہستی ، بے داغ کردار والی شخصیت اور انسان کامل کا سوقیانہ انداز میں ذکر اور کسی بھی استہزائی پیرائےسے اس پر اظہار خیال کیا جا سکتا ہے؟

 اور کیا کسی ایسی قبیح حرکت کو محض چند خود حیض وضع کردہ نام نہاد اصطلاحوں کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے؟ بالخصوص ایسی صورت میں آپ کے ہر مذہب و فکر و نظریہ کےغیر متعصب عالمی دانشور اس شخصیت کو انسانیت کا نجات دہندہ ، بہترین انسان اور رہنما تسلیم کرنے میں ہچکچاتے نہ ہوں اور ایسی شخصیت نبی کی ہو، ارب ہا انسان اس کے پیروکار ہوں اور جو اس ذات گرامی سےغیرمشروط وابستگی ، عشق اور شیفتگی رکھتے ہوں اور حقیقت بھی یہی ہےکہ تاجدار ختم نبوت کی غلامی اور ان کی حرمت و ناموس پر کٹ مرنا ہر مسلمان کی زندگی کی سب سےبڑی آرزو ہے، وہ حضور کےنام اور ناموس پر مر مٹنےاور اس کی خاطر دنیا کی ہر چیز قربان کرنےکو اپنی زندگی کا ماحاصل سمجھتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہےکہ مسلمان ملکوں کی عدالتوں نےشاتم رسول کو سزائےموت کا فیصلہ سنایا اور جن ملکوں میں مسلمانوں کی حکومت نہیں  وہاں مسلمانوں نےرائج الوقت قانون کی پرواہ کیےبغیر گستاخان رسول کو کیفر کردار تک پہنچایا اور خود ہنستےمسکراتے تختہ دار پر چڑھ گئی۔

                                                                                                                                                      جاری هے

تحریر : محمد اسلم لودھی  ( کتاب گھر ڈاٹ کام )


متعلقہ تحریریں:

حضرت محمد مصطفی(ص) کی ولادت با سعادت کے وقت حیرت انگیزواقعات کاظہور

تلاوت قرآن کی شرائط

بیّنہ کی تعریف