شہر لاہور میں عجب خاں نام |
فاقہ کر تا تھا دو دو وقت غریب |
شہر میں تھے امیر جتنے لوگ |
پڑھتا لاحول، سامنے جس کے |
اسی حالت میں مد تیں گزریں |
گھر کے آنگن میں اک دفینہ ملا |
اب عجب خاں امیر تھا بے حد |
عمر بھر ختم ہو نہ سکتی تھی |
اس کے سارے امیر ہمسائے |
میں، صرف ایک دن میں سو سوبار |
جب و ہ کرتے کبھی سلام اسے |
"بہت اچھامیں اس سے کہہ دوں گا" |
سن کے اپنے سلام کا یہ جواب |
"اس سے کہہ دوں گا"کے جو ا ب پہ وہ |
آخر اک روز باتوں باتوں میں |
"اس سے کہہ دوں گا"ہے کہا ں کا سلام |
ہم کو دیتا نہیں جو اب کوئی |
ہے سلاموں کا یہ جواب نیا |
مسکر ا کر کہا عجب خاں نے |
میرا لیتے نہ تھے سلام کبھی |
اب جو اللہ کی عنایت سے |
تم سے مغرور ہو گئے سیدھے |
اب جو سب کرتے ہیں سلام مجھے |
میری دولت کو کرتے ہیں وہ سلام |
اس لئے میں جواب میں سب کے |
یعنی گھر جا کے اپنی دولت کو |
اک بہت ہی غریب انساں تھا |
مفلس اور بد نصیب انساں تھا |
کوئی لیتا نہ تھا سلام اس کا |
کوئی لے دیتا آکے نام اس کا |
ایک دن اس کو خوش نصیبی سے |
جس نے چھڑوا دیا غریبی سے |
اب عجب خاں کے پاس دولت تھی |
اس کی دولت کی اتنی کثرت تھی |
اب ادب سے کلام کرنے لگے |
اس کو جھک کر سلام کرنے لگے |
یوں عجب خاں جو اب میں کہتا |
اور کچھ وہ نہ کہتا چپ رہتا |
شہر کے سب امیر حیراں تھے |
دل ہی دل میں بہت پریشاں تھے |
پوچھا اک شخص نے عجب خاں سے |
پوچھ دیکھا ہر اک مسلماں سے |
اس کا مطلب تمہی بتاؤ ہمیں |
اس میں جو بھید ہے سجھاؤ ہمیں |
جب میں مفلس تھا اور غریب انساں |
تم سے مغرور خوش نصیب انساں |
مجھ کو اتنا بڑا خزانہ ملا |
اور سلاموں کا اک بہانہ ملا |
سچ یہ ہے یہ مجھے سلام نہیں |
اس میں واللہ کچھ کلام نہیں |
کہتا ہوں یہ پیام کہہ دوں گا |
آپ کا یہ سلام کہہ دوں گا |