ہارون الرشید کا پہلا حج اورامام موسی کاظم علیہ السلام کی پہلی گرفتاری
مورخ ابوالفداء لکھتا ہے کہ عنان حکومت لینے کے بعد ہارون الرشیدنے ۱۷۳ ھ میں پہلے پہل حج کیا علامہ ابن حجرمکی تحریرفرماتے ہیں کہ ”جب ہارون الرشیدحج کوآیاتولوگوں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بارے میں چغلی کھائی کہ ان کے پاس ہرطرف سے مال چلاآتاہے ،اتفاق سے ایک روز ہارون رشید خانہ کعبہ کے نزدیک حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملاقی ہوا اور کہنے لگاتم ہی ہوجن سے لوگ چھپ چھپ کربیعت کرتے ہیں امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایاکہ ہم دلوں کے امام ہیں اورآپ جسموں کے،ہارون رشیدنے امام موسی کاظم علیہ السلام سے پوچھاکہ تم کس دلیل سے کہتے ہوکہ ہم رسول اللہ کی ذریت ہیں حالانکہ تم علی کی اولادہواورہرشخص اپنے داداسے منتسب ہوتاہے ناناسے منتسب نہیں ہوتا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ خدائے کریم قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے ”ومن ذریتہ داؤد و سلیمان و ایوب و زکریا و یحیی و عیسی“ اور ظاہر ہے کہ حضرت عیسی بے باپ کے پیداہوئے تھے تو جس طرح محض اپنی والدہ کی نسبت سے ذریت انبیاء میں ملحق ہوئے اسی طرح ہم بھی اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ کی نسبت سے جناب رسول خدا کی ذریت ٹہرے، پھر فرمایا کہ :
جب آیہ مباہلہ نازل ہوئی تومباہلہ کہ وقت پیغمبرنے سواعلی اورفاطمہ اورحسن وحسین کے کسی کونہیں بلایا اوربفحوائے ”ابنانا“ حضرت حسن وحسین ہی رسول اللہ کے لیے بیٹے قرارپائے
(صواعق محرقہ ص ۱۲۲ ،نورالابصار ص ۱۳۴ ،ارجح المطالب ص ۴۵۲) ۔
علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ ہارون رشیدحج کرنے کے بعد مدینہ منورہ آیااورزیارت کے لیے روضہ مقدسہ نبوی پرحاضرہوا اس وقت اس کے گردقریش اوردیگر قبائل عرب جمع تھے،نیزحضرت امام موسی کاظم بھی ساتھ تھے ہارون رشیدنے حاضرین پراپنافخرظاہرکرنے کے لیے قبرمبارک کی طرف ہوکرکہا، سلام ہوآپ پرائے رسول اللہ ،اے ابن عم (میرے چچازادبھائی) حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ سلام ہو، آپ پرائے میرے پدربزرگوار! یہ سن کرہارون کے چہرہ کارنگ فق ہوگیا،اوراس نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کواپنے ہمراہ لے جاکر قیدکردیا
(وفیات الاعیان جلد ۲ ص ۱۳۱ ، تاریخ احمدی ص ۳۴۹) ۔
علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ جس زمانہ میں آپ ہارون رشیدکے قیدخانہ میں تھے ہارون نے آپ کاامتحان کرنے کے لیے ایک نہایت حسین وجمیل لڑکی، آپ کی خدمت کرنے کے لیے قیدخانہ میں بھیجدی حضرت نے جب اسے دیکھاتولانے والے سے فرمایاکہ ہارون سے جاکر کہہ دینا کہ انہوں نے یہ ہدیہ واپس کیاہے اورکہاہے کہ ”بل انتم بہدیتکم تفرحون“ وہ عطائے توبہ لقاء تواس سے تم ہی خوشی حاصل کرو، اس نے ہارون سے واقعہ بیان کیا، ہارون نے کہا کہ اسے لے جاکروہیں چھوڑآؤ، اورابن جعفرسے کہوکہ نہ میں نے تمہاری مرضی سے تمہیں قیدکیاہے اورنہ تمہاری مرضی سے تمہارے پاس یہ لونڈی بھیجی ہے، میں جوحکم دوں وہ کرناہوگاالغرض وہ لومڑی حضرت کے پاس چھوڑ دی گئی -
چند دنوں کے بعد ہارون نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جاکر پتہ لگائے کہ اس لونڈی کا کےا رہا اس نے جو قید خانے میں جا کر دیکھا تو وہ حیران رہ گیا اور بھاگا ہوا ہارون کے پاس آکر کہنے لگا کہ وہ لونڈی توزمین پر سجدہ مےں پڑی ہوئی ”سبّوح قدّوس“ ۔کہہ رہی ہے۔اور اس کا عجیب حال ہے ۔ہارون نے حکم دیا کہ اسے اس کے سامنے پیش کیا جائے ، جب وہ آئی تو بالکل مبہوث تھی ،ہارون نے پوچھا کہ بات کیا ہے ،اس نے کہا کہ جب میں حضرت کے پاس گئی اور میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوئی ہوں ،تو آپ نے ایک طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ لوگ جب کہ میرے پاس موجود ہیں مجھے تیری کیا ضرورت ہے ،میں نے جب اس سمت کو نظر کی تو دیکھا کہ جنّت آراستہ ہے ،اورحوروغلماں موجودہے ان کاحسن وجمال دیکھ کرمیں سجدہ میں گرپڑی اورعبادت کرنے پرمجبورہوگئی ۔
اے بادشاہ میں نے وہ چیزیں کبھی نہیں دیکھیں جوقیدخانہ میں میری نظرسے گزریں، بادشاہ نے کہاکہ کہیں تونے سونے کی حالت میں خواب نہ دیکھاہو، اس نے کہااے بادشاہ ایسانہیں ہے میں نے عالم بیداری میں بچشم خودسب کچھ دیکھاہے یہ سن کربادشاہ نے اس عورت کوکسی محفوظ مقام پرپہنچادیا اوراس کے لیے حکم دیاگیاکہ اس کی نگرانی کی جائے تاکہ یہ کسی سے یہ واقعہ بیان نہ کرنے پائے ،راوی کابیان ہے کہ اس واقعہ کے بعدوہ تاحیات مشغول عبادت رہی اورجب کوئی اس کی نمازوغیرہ کے بارے میں کچھ کہتاتھا تویہ جواب میں کہتی تھی کہ میں نے عبدصالح امام موسی کاظم علیہ السلام کواسی طرح کرتے دیکھاہے۔
یہ پاکبازعورت حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات سے چنددنوں پہلے فوت ہوگئی
(مناقب ابن شہرآشوب جلد ۵ ص ۶۳) ۔
/www.shahroudi.net