حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی بعض کرامات
واقعہ شقیق بلخی
علامہ محمدبن شافعی لکھتے ہیں کہ آپ کے کرامات ایسے ہیں کہ ”تحارمنہاالعقول“ ان کودیکھ کر عقلیں چکرا جاتی ہیں ، مثال کے لیے ملاحظہ ہو؟ ۱۴۹ ھ میں شقیق بلخی حج کے لیے گئے ان کا بیان ہے کہ میں جب مقام قادسیہ میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ایک نہایت خوب صورت جوان جن کا رنگ سانولہ (گندم گوں) تھا وہ ایک عظیم مجمع میں تشریف فرما ہیں جسم ان کا ضعیف ہے وہ اپنے کپڑوں کے اوپر ایک کمبل ڈالے ہوئے ہیں اور پیروں میں جوتیاں پہنے ہوئے ہیں تھوڑی دیر بعد وہ مجمع سے ہٹ کر ایک علیحدہ مقام پر جاکر بیٹھ گئے، میں نے دل میں سوچا کہ یہ صوفی ہے اور لوگوں پر زاد راہ کے لیے بار بننا چاہتاہے ، میں ابھی اس کی ایسی تنبیہ کروں گا کہ یہ بھی یاد رکھے گا،غرضیکہ میں ان کے قریب گیا جیسے ہی میں ان کے قریب پہنچا ہوں، وہ بولے ائے شقیق بدگمانی مت کیا کرو یہ اچھا شیوہ نہیں ہے، اس کے بعد وہ فورا اٹھ کر روانہ ہوگئے ، میں نے خیال کیاکہ یہ معاملہ کیا ہے انہوں نے میرا نام لے کر مجھے مخاطب کیا اور میرے دل کی بات جان لی-
اس واقعہ سے میں اس نتیجہ پرپہنچا کہ ہونہ ہویہ کوئی عبدصالح ہوں بس یہی سوچ کرمیں ان کی تلاش میں نکلااوران کاپیچھاکیا، خیال تھاکہ وہ مل جائیں گے تومیں ان سے کچھ سوالات کروں گا،لیکن نہ مل سکے،ان کے چلے جانے کے بعدہم لوگ بھی روانہ ہوئے ، چلتے چلتے جب ہم ”وادی فضہ“ میں پہنچے توہم نے دیکھاکہ وہی جوان صالح یہاں نمازمیں مشغول ہیں اوران کے اعضاء وجوارح بیدکی مانندکانپ رہے ہیں اوران کی آنکھوں سے آنسوجاری ہیں میں یہ سوچ کران کے قریب گیاکہ اب ان سے معافی طلب کروں گاجب وہ نمازسے فارغ ہوئے توبولے ائے شفیق خداکاقول ہے کہ جوتوبہ کرتاہے میں اسے بخش دیتاہوں اس کے بعدپھرروانہ ہوگئے اب میرے دل میں یہ یقین آیاکہ یقینا یہ بندہ عابد،کوئی ابدال ہے ،کیوں کہ دو باریہ میرے ارادہ سے اپنی واقفیت ظاہرکرچکاہے میں نے ہرچندپھران سے ملنے کی سعی کی لیکن وہ نہ مل سکے جب میں منزل زبالہ پرپہنچاتودیکھاکہ وہی جوان ایک کنویں کی جگت پربیٹھے ہوئے ہیں اس کے بعدانہوں نے ایک کوزہ نکال کرکنوئیں سے پانی لیناچاہا،ناگاہ ان کے ہاتھ سے کوزہ چھوٹ کرکنوئیں میں گرگیا،میں نے دیکھاکہ کوزہ گرنے کے بعد انہوں نے آسمان کی طرف منہ کرکے بارگاہ احدیت میں کہا:
میرے پالنے والے جب میں پیاسا ہوتا ہوں تو ہی سیراب کرتا ہے اور جب بھوکا ہوتا ہوں تو ہی کھانا دیتا ہے خدایا!اس کوزہ کے علاوہ میرے پاس کوئی اور کوزہ نہیں ہے ، میرے مالک! میرا کوزہ پرآب برآمد کردے، اس جوان صالح کا یہ کہنا تھا کہ کنوئیں کا پانی بلند ہوا اور اوپر تک آگیا آپ نے ہاتھ بڑھاکر اپنا کوزہ پانی سے بھرا ہوا لے لیا اور وضو فرما کر چار رکعت نمازپڑھی، اس کے بعدآپ نے ریت کی ایک مٹھی اٹھائی اور پانی میں ڈال کرکھانا شروع کر دیا یہ دیکھ کر میں عرض پرداز ہوا جناب والا! مجھے بھی کچھ عنایت ہو میں بھوکا ہوں آپ نے وہی کوزہ میرے حوالے کردیا جس میں ریت بھری تھی خداکی قسم جب میں نے اس میں سے کھایا تو اسے ایسا لذیذ ستو پایا جیسا میں نے کھایا ہی نہ تھا، پھر اس ستو میں ایک خاص بات یہ تھی کہ میں جب تک سفر میں رہا بھوکا نہیں ہوا اس کے بعدآپ نظروں سے غائب ہوگئے ۔
جب میں مکہ معظمہ میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ایک بالو (ریت) کے ٹیلے کے کنارے مشغول نماز ہیں اور حالت آپ کی یہ ہے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور بدن پرخضوع و خشوع کے آثار نمایاں ہیں آپ نماز ہی میں مشغول تھے کہ صبح ہوگئی، آپ نے نمازصبح ادا فرمائی اور اس سے اٹھ کر طواف کا ارادہ کیا، پھرسات بارطواف کرنے کے بعد ایک مقام پرٹہرے میں نے دیکھاکہ آپ کے گردبیشمارحضرات ہیں اورسب بے انتہاتعظیم وتکریم کررہے ہیں ،میں چونکہ ایک ہی سفرمیں کرامات دیکھ چکاتھا اس لیے مجھے بہت زیادہ فکرتھی کہ یہ معلوم کروں کہ یہ بزرگ ہیں کون؟ انہوں نے کہاکہ یہ فرزند رسول حضرت امام موسی کاظم ہیں،میں نے کہابے شک یہ صاحب کرامات جومیں میں نے دیکھے وہ اسی گھرانے کے لیے سزاوارہیں -
(مطالب السول ص ۲۷۹ ،نورالابصارص ۱۳۵ ،شواہدالنبوت ص ۱۹۳ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۱ ، ارجح المطالب ص ۴۵۲) ۔
مورخ ذاکرحسین لکھتے ہیں کہ شقیق ابن ابراہیم بلخی کاانتقال ۱۹۰ ھ میں ہواتھا
( تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۵۹) ۔
امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ عیسی مدائنی حج کے لیے گئے اور ایک سال مکہ میں رہنے کے بعدوہ مدینہ چلے گئے ان کاخیال تھا کہ وہاں بھی ایک سال گزاریں گے، مدینہ پہنچ کرانہوں نے جناب ابوذرکے مکان کے قریب ایک مکام میں قیام کیا۔
مدینہ میں ٹہرنے کے بعد انہوں نے امام موسی کاظم علیہ السلام کے وہاں آناجاناشروع کیا،مدائنی کابیان ہے کہ ایک شب کوبارش ہورہی تھی اورمیں اس وقت امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضرتھا، تھوڑی دیرکے بعد آپ نے فرمایاکہ اے عیسی تم فورااپنے مکان چلے جاؤکیونکہ ”انہدم البیت علی متاعک“ تمہارامکان تمہارے اثاثہ پرگرگیاہے اورلوگ سامان نکال رہے ہیں یہ سن کرمیں فورامکان کی طرف گیا، دیکھاکہ گھرگرچکاہے اورلوگ سامان نکال رہے ہیں،دوسرے دن جب حاضرہواتوامام علیہ السلام نے پوچھاکہ کوئی چیزچوری تونہیں ہوئی ،میں نے عرض کی صرف ایک طشت نہیں ملتا جس میں وضو کیاکرتاتھا، آپ نے فرمایاوہ چوری نہیں ہوا،بلکہ انہدام مکان سے پہلے تم اسے بیت الخلاء میں رکھ کربھول گئے ہو،تم جاؤاورمالک کی لڑکی سے کہو،وہ لادے گی، چنانچہ میں نے ایساہی کیا اورطشت مل گیا
(نورالابصارص ۱۳۵) ۔
علامہ جامی تحریرفرماتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک صحابی کے ہمراہ سو دینارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں بطورنذرارسال کیاوہ اسے لے کرمدینہ پہنچا، یہاں پہنچ کراس نے سوچاکہ امام کے ہاتھوں میں اس جاناہے لہذا پاک کرلیناچاہئے وہ کہتاہے کہ میں نے ان یناروں کوجوامانت تھے شمارکیا تووہ نناوے تھے میں نے ان میں اپنی طرف سے ایک دینارشامل کرکے سوپورا کردیا،جب میں حضرت کی خدمت میں حاضرہواتوآپ نے فرمایاسب دینارزمین پرڈال دو،میں نے تھیلی کھو ل کرسب زمین پرنکال دیا ، آپ نے میرے بتائے بغیراس میں سے میرا وہی دینارجومیں نے ملایاتھا مجھے دیدیا اورفرمایا بھیجنے والے نے عددکالحاظ نہیں کیا بلکہ وزن کالحاظ کیاہے جو ۹۹ میں پوراہوتاہے۔
ایک شخص کاکہناہے کہ مجھے علی بن یقطین نے ایک خط دے کرامام علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا،میں نے حضرت کی خدمت میں پہنچ کر ان کاخط دیا، انہوں نے اسے پڑھے بغیرآستین سے ایک خط نکال کرمجھے دیااورکہا کہ انہوں نے جوکچھ لکھاہے اس کایہ جواب ہے -
(شواہدالنبوت ص ۱۹۵) ۔
ابوبصیرکابیان ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام دل کی باتیں جانتے تھے اورہرسوال کاجواب رکھتے تھے ہرجاندارکی زبان سے واقف تھے -
(روائح المصطفی ص ۱۶۲) ۔
ابوحمزہ بطائنی کاکہناہے کہ میں ایک مرتبہ حضرت کے ساتھ حج کوجارہاتھا کہ راستہ میں ایک شیربرآمدہوا،اس نے آپ کے کان میں کچھ کہاآپ نے اس کواسی کی زبان میں جواب دیااوروہ چلاگیا ہمارے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ اس نے اپنی شیرنی کی ایک تکلیف کے لیے دعاکی خواہش کی، میں نے دعاکردی اوروہ واپس چلاگیا-
(تذکرة المعصومین ص ۱۹۳) ۔
www.shahroudi.net