آپ کے بچپن کے بعض واقعات
یہ مسلمات سے ہے کہ نبی اورامام تمام صلاحیتوں سے بھرپورمتولد ہوتے ہیں،جب حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی عمرتین سال کی تھی ،ایک شخص جس کانام صفوان جمال تھا حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوکرمستفسرہوا کہ مولا،آپ کے بعد امامت کے فرائض کون ادا کرے گا، آپ نے ارشاد فرمایا ائے صفوان!تم اسی جگہ بیٹھواوردیکھتے جاؤجوایسا بچہ میرے گھرسے نکلے جس کی ہربات معرفت خداوندی سے پر ہو،اورعام بچوں کی طرح لہوولعب نہ کرتا ہو،سمجھ لینا کہ عنان امامت اسی کے لیے سزاوار ہے اتنے میں امام موسی کاظم علیہ السلام بکری کا ایک بچہ لیے ہوئے برآمد ہوئے اورباہرآ کراس سے کہنے لگے ”اسجدی ربک“ اپنے خدا کا سجدہ کر یہ دیکھ کر امام جعفرصادق نے اسے سینہ سے لگا لیا-
(تذکرةالمعصومین ص ۱۹۲) ۔
صفوان کہتا ہے کہ یہ دیکھ کرمیں نے امام موسی سے کہا،صاحبزادے !اس بچہ کوکہئے کہ مرجائے آپ نے ارشاد فرمایا :کہ وائے ہوتم پر،کیا موت وحیات میرے ہی اختیارمیں ہے
(بحارالانوارجلد ۱۱ ص ۲۶۶) ۔
علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ ایک دن حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے مسائل دینیہ دریافت کرنے کے لیے حسب دستورحاضرہوئے اتفاقا آپ آرام فرما رہے تھے موصوف اس انتظارمیں بیٹھ گئے کہ آپ بیدار ہوں توعرض مدعا کروں ،اتنے امام موسی کاظم جن کی عمراس وقت پانچ سال کی تھی برآمد ہوئے امام ابوحنیفہ نے انہیں سلام کرکے کہا: اے صاحبزادے یہ بتاؤکہ انسان فاعل مختار ہے یا ان کے فعل کا خدا فاعل ہے یہ سن کرآپ زمین پردو زانو بیٹھ گئے اور فرمانے لگے سنو! بندوں کے افعال تین حالتوں سے خالی نہیں ،یاان کے افعال کا فاعل صرف خدا ہے یاصرف بندہ ہے یا دونوں کی شرکت سے افعال واقع ہوتے ہیں اگرپہلی صورت ہے تو خدا کو بندہ پرعذاب کا حق نہیں ہے،اگرتیسری صورت ہے توبھی یہ انصاف کے خلاف ہے کہ بندہ کوسزا دے اوراپنے کوبچا لے کیونکہ ارتکاب دونوں کی شرکت سے ہوا ہے اب لامحالہ دوسری صورت ہوگی،وہ یہ کہ بندہ خودفاعل ہے اورارتکاب قبیح پرخدا اسے سزادے ۔بحارالانوارجلد ۱۱ ص ۱۸۵) ۔
امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ میں نے اس صاحبزادے کواس طرح نمازپڑھتے ہوئے دیکھ کران کے سامنے سے لوگ برابرگزر رہے تھے امام جعفرصادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ کے صاحبزادے موسی کاظم نمازپڑھ رہے تھے اورلوگ ان کے سامنے سے گزر رہے تھے، حضرت نے امام موسی کاظم کوآواز دی وہ حاضرہوئے، آپ نے فرمایا بیٹا! ابوحنیفہ کیا کہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ تم نمازپڑھ رہے تھے اورلوگ تمہارے سامنے سے گزر رہے تھے امام کاظم نے عرض کی باباجان لوگوں کے گزرنے سے نمازپرکیا اثرپڑتا ہے، وہ ہمارے اورخدا کے درمیان حائل تونہیں ہوئے تھے کیونکہ وہ تو”اقرب من حبل الورید“ رگ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے ،یہ سن کرآپ نے انھیں گلے سے لگالیا اورفرمایااس بچہ کواسرارشریعت عطاہوچکے ہیں
(مناقب جلد ۵ ص ۶۹) ۔
ایک دن عبداللہ ابن مسلم اور ابوحنیفہ دونوں وارد مدینہ ہوئے، عبداللہ نے کہا، چلو امام صادق علیہ السلام سے ملاقات کریں اوران سے کچھ استفادہ کریں، یہ دونوں حضرت کے در دولت پر حاضر ہوئے یہاں پہنچ کر دیکھا کہ حضرت کے ماننے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے ، اتنے امام صادق علیہ السلام کے بجائے امام موسی کاظم برآمد ہوئے لوگوں نے سر و قد تعظیم کی، اگرچہ آپ اس وقت بہت ہی کمسن تھے لیکن آپ نے علوم کے دریا بہانے شروع کیے عبداللہ و غیرہ نے جو قدرے آپ سے دور تھے آپ کے قریب جاتے ہوئے آپ کی عزت و منزلت کا آپس میں تذکرہ کیا، آخر میں امام ابوحنیفہ نے کہا کہ چلو میں انھیں ان کے شیعوں کے سامنے رسوا اور ذلیل کرتا ہوں، میں ان سے ایسے سوالات کروں گا کہ یہ جواب نہ دیے سکیں گے عبداللہ نے کہا، یہ تمہارا خیال خام ہے ، وہ فرزند رسول ہیں ،الغرض دونوں حاضر خدمت ہوئے، امام ابوحنیفہ نے امام موسی کاظم سے پوچھا صاحبزادے، یہ بتاؤ کہ اگر تمہارے شہر میں کوئی مسافر آ جائے اوراسے قضا حاجت کرنی ہو تو کیا کرے اور اس کے لیے کونسی جگہ مناسب ہوگی حضرت نے برجستہ جواب فرمایا:
”مسافرکوچاہئے کہ مکانوں کی دیواروں کے پیچھے چھپے، ہمسایوں کی نگاہوں سے بچے نہروں کے کناروں سے پرہیزکرے جن مقامات پردرختوں کے پھل گرتے ہوں ان سے حذرکرے۔
مکان کے صحن سے علیحدہ، شاہراہوں اورراستوں سے الگ مسجدوں کوچھوڑکر،نہ قبلہ کی طرف منہ کرے نہ پیٹھ ، پھر اپنے کپڑوں کو بچا کرجہاں چاہے رفع حاجت کرے یہ سن کر امام ابوحنیفہ حیران رہ گیے ، اور عبداللہ کہنے لگے کہ میں نہ کہتا تھا کہ یہ فرزند رسول ہیں انہیں بچپن ہی میں ہرقسم کاعلم ہواکرتاہے
(بحار،مناقب واحتجاج)۔
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں :
کہ ایک دن حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام مکان میں تشریف فرماتھے اتنے میں آپکے نورنظرامام موسی کاظم علیہ السلام کہیں باہر سے واپس آئے امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا بیٹے! ذرا اس مصرعہ پرمصرعہ لگاؤ”تنح عن القبیح ولامزتودہ“ آپ نے فورامصرعہ لگایا ”ومن اولیتہ حسنا فزدہ“ بری باتوں سے دوررہو اوران کاارادہ بھی نہ کرو ۲ ۔ جس کے ساتھ بھلائی کرو،بھرپورکرو“ پھرفرمایا! اس پرمصرعہ لگاؤ ”ستلقی من عدوک کل کید“ آپ نے مصرعہ لگایا ”اذاکاوالعدوفلاتکدہ“ (ترجمہ) ۱ ۔ تمہارادشمن ہرقسم کامکروفریب کرے گا ۲ ۔ جب دشمن مکروفریب کرے تب بھی اسے برائی کے قریب نہیں جانا چاہئے
(بحارالانوار جلد ۱۱ ص ۳۶۶) ۔
www.shahroudi.net