امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات (3)
خطبہ شقشقیہ
( آپ کے ایک خطبہ کا حصہ جسے شقشقیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے)
آگاہ ہو جاؤ کہ خدا کی قسم فلاں شخص ( ابن ابی قحافہ) نے قمیص خلافت کو کھینچ تان کر پہن لیا ہے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ خلات کی چکی کے لئے میری حیثیت مرکزی کیل کی ہے۔علم کا سیلاب میری ذات سے گزر کرنیچے جاتا ہے اور میری بلندی تک کسی کا طائر فکر بھی پرواز نہیں کر سکتا ہے۔ پھر بھی میں نے خلافت کے آگے پردہ ڈال دیا اور اس سے پہلے تہی کرلی اوریہ سوچنا شروع کردیا کہ کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کردوں یا اسی بھیانک اندھیرے پرصبر کرلوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف ہو جائے اوربچہ بوڑھا ہو جائے اور مومن محنت کرتے کرتے خدا کی بارگاہ تک پہنچ جائے۔
تو میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے تو میں نے اس عالم میں صبر کرلیا کہ آنکھوں میں مصائب کی کھٹک تھی اورگلے میں رنج و غم کے پھندے تھے۔میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا ۔یہاں تک کہ پہلے خلیفہ نے اپنا راستہ لیا اور خلافت کو اپنے بعد فلاں کے حوالے کردیا۔ بقول اعشی:
”کہاں وہ دن جو گزرتا تھا میرا اونٹوں پر۔ کہاں یہ دن کہ میں حیان کے جوار میں ہوں “
حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں استغفار دے رہا تھا اور مرنے کے بعد کے لئے دوسرے کے لئے طے کرگیا۔ بیشک دونوں نے مل کر شدت سے اس کے تھنوں کو دوہا ہے۔اور اب ایک ایسی درشت اور سخت منزل میں رکھ دیا ہے جس کے زخم کاری ہیں اورجس کو چھونے سے بھی درشتی کا احساس ہوتا ہے۔ لغزشوں کی کثرت ہے اور معذرتوں کی بہتات!
اس کو برداشت کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے سرکش اونٹنی کا سوار کہ مہار کھنیچ لے تو ناک زخمی ہو جائے اور ڈھیل دیدے تو ہلاکتوں میں کود پڑے۔ تو خدا کی قسم لوگ ایک کجروی‘ سرکشی‘ تلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہوگئے ہیں اور میں نے بھی سخت حالات میں طیل مدت تک صبر کیا یہاں تک کہ وہ بھی اپنے راستہ چلا گیا لیکن خلافت کو ایک جماعت میں قرار دے گیا جن میں ایک مجھے بھی شمار کرگیا جب کہ میرا اس شوریٰ سے کیا تعلق تھا؟ مجھ میں پہلے دن کون سا عیب و ریب تھا کہ آج مجھے ایسے لوگوں کے ساتھ ملایا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں نے انہیں کی فضا میں پرواز کی اور یہ نزدیک فضا میں اڑے تو وہاں بھی ساتھ رہا اور اونچے اڑے تو وہاں بھی ساتھ رہا مگر پھر بھی ایک شخص اپنے کینہ کی بنا پرمجھ سے منحرف ہوگیا اور دوسری دامادی کی طرف جھک گیا اور کچھ اور بھی ناقابل ذکراسباب واشخاص تھے جس کے نتجیہ میں تیسرا شخص سرگین اورچارہ کے درمیان پیٹ پھلائے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے اہل خاندان بھی کھڑے ہوئے جو مال خا کو اس طرح ہضم کر رہے تھے جس طرح اونٹ بہار کی گھاس کو چرلیتا ہے یہاں تک کہ اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کے اعمال نے اس کا خاتمہ کردیا اور شکم پری نے منہ کے بل گرا دیا-
اس وقت مجھے جس چیزنے دہشت زدہ کردیا یہ تھی کہ لوگ بجو کی گردن کے بال کی طرح میرے گرد جمع ہوگئے اور چاروں طرف سے میرے اوپر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ حسن و حسین کچل گئے اور میری ردا کے کنارے پھٹ گئے ۔ یہ سب میرے گرد بکریوں کے گلہ کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ لیکن جب میں نے ذمہ داری سنبھالی اوراٹھ کھڑے ہوا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ دی اوردوسرا دین سے باہرنکل گیا اور تیسرے نے فسق اختیار کرلیا جیسے کہ ان لوگوں نے یہ ارشاد الٰہی سنا ہی نہیں ہے کہ” یہ دارآخرت ہم صرف ان لوگوں کے لئے قراردیتے ہیں جو دنیا میں بلندی اور فساد نہیں چاہتے ہیں اور عاقبت صرف اہل تقوی کے لئے ہیں “۔ ہاں ہاں خدا کی قسم ان لوگوں نے یہ ارشاد سنا بھی ہے اور سمجھے بھی ہیں لیکن دنیا ان کی نگاہوں میں آراستہ ہوگئی اور اس کی چمک دمک نے انہیں لبھا لیا۔
آگاہ ہو جاؤ وہ خدا گواہ ہے جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اورذی روح کو پیدا کیا ہے کہ اگر حاضرین کی موجودگی اور انصار کے وجود سے حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اوراللہ کا اہل علم سے یہ عہد نہ ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پرچین سے نہ بیٹھنا تو میں آج بھی اس خلافت کی رسی کو اسی کی گردن پر ڈال کر ہنکا دیتا اور اس کی آخر کواول ہی کے کاسہ سے سیراب کرتا اور تم دیکھ لیتے کہ تمہاری دنیا میری نظرمیں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس موقع پرایک عراقی باشندہ اٹھ کھڑا ہوا اوراس نے آپ کو ایک خط دیا جس ک بارے میں خیال ہے کہ اس میں کچھ فوری جواب طلب مسائل تھے۔چنانچہ آپ نے اس خط کو پڑھنا شروع کردیا اور جب فارغ ہوئے تو ابن عباس نے عرض کی کہ حضوربیان جاری رہے؟ فرمایا کہ افسوس ابن عباس یہ توایک شقشقہ تھا جو ابھر کر دب گیا۔
(شقشقہ اونٹ کے منہ میں وہ گوشت کا لوتھڑا ہے جو غصہ اور ہیجان کے وقت باہر نکل آتا ہے )
ابن عباس کہتے ہیں کہ بخدا قسم مجھے کسی کلام کے ناتمام رہ جانے کا اس قدر افسوس نہیں ہوا جتنا افسوس اس امر پرہوا کہ امیر المومنین اپنی بات پوری نہ فرما سکے اور آپ کا کلام نا تمام رہ گیا۔
سید شریف رضی فرماتے ہیں کہ امیر المومنین کے ارشاد”ان اشنقلھا……کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ناقہ پر مہارکھینچنے میں سختی کی جائے گی اور وہ سر کشی پرآمادہ ہو جائے گا تو اس کی ناک زخمی ہو جائے گی اوراگر ڈھیلا چھوڑ دیا جائے تو اختیار سے باہر نکل جائے گا۔عرب ”اشنق الناقہ“ اس موقع پر استعمال کرتے ہیں جب اس کے سر کو مہار کے ذریعہ کھینچا جاتا ہے اور وہ سر اٹھا لیتا ہے۔اس کیفیت کو” شنقہا“سے بھی تعبیر کرتے ہیں جیسا کہ ابن السکیت نے ” اصلاح المنطق“ میں بیان کیا ہے۔لیکن امیرالمومنین نے اس میں ایک لام کا اضافہ کردیا ہے ”اشنق لھا“ تاکہ بعد کے جملہ ” اسلس لھا “ سے ہم آہنگ ہو جائے اور فصاحت کا نظام درہم برہم نہ ہونے پائے۔
https://www.iktrust.org
متعلقہ تحریریں:
امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب حکیمانہ کلمات (1)
امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب حکیمانہ کلمات (2)
امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب حکیمانہ کلمات (3)
نہج البلاغہ میں عبادت کی اقسام
عبادت نہج البلاغہ کی نظر میں