پیغمبر اسلام، ایک ہمہ گیر اور جامع الصفات شخصیت
(پیغمبر ختمی المرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت ایسی ہمہ گیر اور جامع شخصیت ہے کہ اس کے تمام پہلؤں کا احاطہ ناممکن ہے، ہر شخص اور محقق اپنی استعداد کے مطابق اس بحر مواج میں غوطہ زن ہو کر معرفت کے گوہر حاصل کرتا ہے، قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مختلف مواقع پر اپنی تقاریر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات والا صفات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی، تقاریر کے متعلقہ اقتباسات پیش نظر ہیں)
الف :امت اسلامیہ کی یکجہتی کا محور:
پیغمبر اسلام (ص)کی شخصیت عالم خلقت کا نقطہ کمال اور عظمتوں کی معراج ہے۔ خواہ کمالات کے وہ پہلو ہوں جو انسان کےلئے قابل فہم ہیں جیسے انسانی عظمت کے معیار کے طور پر عقل، بصیرت، فہم، سخاوت، رحمت اور درگذر وغیرہ کے عنوان سے جانے جاتے ہیں خواہ وہ پہلو ہوں جو انسانی ذہن کی پرواز سے ما ورا ہیں یعنی وہ پہلو جو پیغمبر اسلام (ص) کو اللہ تعالی کے اسم اعظم کے مظہر کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں یا تقرب الہی کے آپ کے درجات کی جانب اشارہ کرتے ہیں، کہ ہم ان پہلوؤں کو کمالات کا نام دیتے ہیں اور اتنا ہی جانتے ہیں کہ یہ کمالات ہیں لیکن ان کی حقیقت سے اللہ تعالٰی اور اس کے خاص اولیا ہی آگاہ ہیں۔ یہ ان کی شخصیت تھی اور دوسری طرف ان کا لایا ہوا پیغام انسانی سعادت کے لئے سب سے عظیم اور بہترین پیغام ہے جو توحید، انسان کی عظمت و سربلندی اور انسانی وجود کے کمال و ارتقا کا حامل ہے اور یہ کہنا بجا ہے کہ انسانیت آج تک اس پیغام کے تمام پہلوؤں کو بطور کامل اپنی زندگی میں نافذ نہیں کر سکی ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ انسانی ترقی اور کمال ایک نہ ایک دن اپنے مطلوبہ مقام تک ضرور رسائی حاصل کرے گا اور یہی انسانیت کا نقطہ عروج و کمال ہوگا۔
البتہ اس مفروضہ کی بنیاد پر کہ انسانی سوچ اور فکر اور اسکا علم وادراک روزبروز ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور یہ مسلمہ ہے کہ اسلام کا پیغام زندہ و جاوید ہے کوئی وجہ نہیں کہ ایک نہ ایک دن یہ پیغام انسان کی معاشرتی زندگی میں اپنا مقام حاصل نہ کر لے۔ نبی اکرم(ص)کے پیغام توحید کی حقانیت،اسلام کا درس زندگی اور انسانی سعادت اور ترقی کے لئے اسلام کے بیان کردہ زریں اصول انسان کو اس مقام پر پہنچا دیں گے کہ وہ اپنی گمشدہ منزل تلاش کر لے اور پھر اس راہ پر گامزن ہو کر ترقی اور کمال کی منازل طے کرے۔ وہ چیز جو ہم مسلمانوں کے لئے اہم ہے وہ یہ کہ اسلام اور پیغمبر(ص)کی زیادہ سے زیادہ شناخت و معرفت حاصل کریں، آج دنیائے اسلام کا سب سے بڑا درد فرقہ واریت ہے۔ عالم اسلام کی یکجہتی اور اتحاد کا محور پیغمبراسلام(ص)کے مقدس وجود کو قرار دیا جا سکتا ہے جن پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہے اور جو تمام انسانوں کے احساسات کا مرکزی نقطہ ہیں۔ ہم مسلمانوں کے پاس پیغمبراسلام(ص)کے مقدس وجود سے بڑھ کر کوئی ایسا جامع اور واضح نقطہ اتحاد نہیں ہے کہ جس پر تمام مسلمانوں کا ایمان و اعتقاد بھی ہو اور جن (ص) کے وجود سے سب مسلمانوں کا اندرونی اور قلبی رشتہ بھی ہو اور یہی نقطہ اتحاد کا بہترین مرکز و محور ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے جو ہم ادھر چند سالوں میں مشاہدہ کر رہے ہیں کہ قرون وسطی کی طرح مستشرقین نے آنحضرت (ص) کے وجود مقدس پر اہانت آمیز تنقید و تبصرے کرنا شروع کر دیا ہے۔
قرون وسطی میں بھی عیسائی پادریوں نے اپنی تحریروں، تقریروں اور نام نہاد آرٹ کے فن پاروں میں جب مستشرقین کی تاریخ نویسی کا آغاز ہوا تھا، پیغمبر(ص)کی شخصیت کو نشانہ بنایا۔ گذشتہ صدی میں بھی ہم نے ایک بار پھر دیکھا کہ مغرب کے غیر مسلم مستشرقین نے جس چیز کو شک و شبہے اور جسارت و اہانت کا نشانہ بنایا تھا وہ پیغمبراسلام(ص)کی مقدس شخصیت تھی۔ اب کئی سال گذرنے کے بعد ان حالیہ سالوں میں ہم پھر دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا اور نام نہاد ثقافتی لٹریچر کے ذریعہ دنیا کے مختلف مقامات پر آپ(ص)کی شخصیت پر ایک بار پھر حملے کرنے کی جسارت کی گئي ہے۔
یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے کیونکہ انہوں نے اس حقیقت کو بھانپ لیا ہے کہ مسلمان اسی مقدس شخصیت کے وجود پر جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ ان سے تمام مسلمانوں کو عشق اور والہانہ محبت ہے لہذا انہوں نے اسی مرکز کو حملے کا نشانہ بنایا۔ آج علمائے اسلام اور مسلمان دانشوروں، مصنفین، شعرا اور اہل فن حضرات سب کی ذمہ داری ہے کہ ان سے جتنا بھی ممکن ہو پیغمبر اسلام(ص)کی شخصیت کے عظوم پہلوؤں کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے سامنے بیان کریں ان افراد کا یہ کام امت اسلامیہ کے اتحاد میں اور ان مسلم نوجوانوں کی رہنمائی میں جو اسلام کی طرف بڑی شدت سے راغب نظر آ رہے ہیں، بہت زیادہ مددگار ثابت ہوگا۔
۱۷ربیع الاول کی مناسبت سے حکومتی عہدہ داروں سے خطاب کا اقتباس(۳۱۔۳۔۷۹)
امام خمینی(رہ) کی با بصیرت نظر کی بدولت اسلامی انقلاب کا ایک فیض یہ ہے کہ میلاد النبی(ص)کے ایام کو ہفتہ اتحاد کا نام دیا گیا۔ اس لحاظ سے بھی اس مسئلہ کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی کہ بہت سے لوگوں کی دیرینہ خواہش تھی کہ اسلامی اتحاد کے لیے کام کیا جائے۔ بعض لوگ تو صرف بات کی حد تک کوئی نظریہ دیتے ہیں لیکن بعض لوگوں کی واقعی دیرینہ خواہش تھی بہرحال اس آرزو اور خواہش کی تکمیل کے لیے عملی اقدام ضروری تھا کیونکہ کوئی خواہش بغیر عملی جدوجہد کے پوری نہیں ہو سکتی۔ جب ہم نے اس سمت میں عملی اقدامات اور مطلوبہ مقصد تک پہنچنے کی راہ کے بارے میں سوچا تو اس محور کے طور پر جو بہترین اور عظیم ترین شخصیت ہمارے سامنے جلوہ گر ہوئی۔ وہ فخر کائنات حضرت محمد مصطفٰی(ص) کی ذات تھی کہ جنکی مرکزی حیثیت دنیا تمام مسلمانوں کے عقائد وافکار کا سرچشمہ ہے۔
اسلامی دنیا میں وہ نقطہ جس پر سب متفق ہوں اور سب کے عقائد اور جذبات و احساسات کی ترجمانی بھی ہو جائے شاید میسر نہ آ سکے یا ہو تو شاذ و نادر ہی ہو کیونکہ جذبات کا انسانی زندگی میں خاص کردار ہے اور یقینا بعض وہ اقلیتیں جو مسلمانوں سے علیحدہ ہو گئی ہیں ان کے درمیان کچھ جذبات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتیں اور عشق و محبت یا توسل اور وسیلے کی منکر ہیں پھر بھی عام مسلمانوں کے لئے پیغمبر اسلام(ص) سے محبت اور عشق و عقیدت دین کا ایک لازمی عنصر ہے لہذا آپ کا وجود مبارک وحدت کا بہترین محور بن سکتا ہے۔
مسلمانوں اور مسلم دانشوروں کو چاہیئے کہ وہ پیغمبر اسلام(ص)کی شخصیت، آپ کی تعلیمات اور آپ سے عشق ومحبت کے موضوع کے سلسلے میں وسیع النظری سے کام لیں۔ ان عوامل میں جو اتحاد و یکجہتی کےلیے محور قرار پا سکتے ہیں اور تمام مسلمان جن پر متفق ہو سکتے ہیں اہلبیت پیغمبر(ع) کی اطاعت اور پیروی بھی ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) کے اہلبیت(ع) کی عظمت کو تمام مسلمان قبول کرتے ہیں البتہ شیعہ ان کی امامت کے بھی قائل ہیں اور غیر شیعہ ان کو شیعی نقطہ نگاہ کی طرح امام منصوص نہیں مانتے پھر بھی انہیں پیغمبراسلام(ص)کے عظیم خاندان سے اسلامی تعلیمات اور اسلامی احکام سے کما حقہ آشنا اسلام کی عظیم شخصیات میں سمجھتے ہیں لہذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ اہلبیت پیغمبر(ع) کے فرامین پر عمل کے دائرے میں متفق ہو جائیں۔ یہ وحدت و یکجہتی کا بہترین وسیلہ ہے۔
پیغمبراسلام (ص) کی میلاد کے ایام ہر مسلمان کے لئے تاریخ کے سنہری مواقع ہیں۔ اسی ولادت کی برکت سے تاریخ بشریت نے ایک نیا رخ اختیار کیا،کائنات کی ہر فضیلت کا سرچشمہ آپ(ص)کی بعثت اور مکارم اخلاق ہیں ہر مسلمان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ دنیائے اسلام کی محبتوں کا مرکز اور مسلمانوں کے مختلف مذاہب ومکاتب کا محور حضرت محمد مصطفٰی(ص) کا مقدس وجود ہے چونکہ تمام مسلمانوں کو آپ سے عشق ہے لہذا آپ تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کے لئے نقطہ اتحاد رہے ہیں۔ اسی لیے آپ کے ایام ولادت مبارک بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
اسلامی یکجہتی عالمی کانفرنس کے شرکا اور عمائدین مملکت سے خطاب سے اقتباس (۲۴۔۵۔۷۴)
مسلمانوں کے اتحاد کا مرکزی نقطہ پیغمبر اسلام(ص) ہیں اور آپ کی عظیم شخصیت،آپ کا اسم مبارک، محبت، کرامت اور عظمت امت اسلامی کی فکری یکجہتی کا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا وجود ذی جود امت اسلامیہ کی ہر فرد کے لئے پوری تاریخ اسلام میں وحدت کا محور رہا ہے۔
دین اسلام کا کوئی ایسا عنوان نہیں ہے جو آپ(ص)کے مقدس وجود کی طرح ہر لحاظ سے عقل کی راہ ہو یا عشق و محبت کی، روحانی اور معنوی پہلو ہو یا اخلاقی،تمام اسلامی مکاتب کے لئے قابل قبول ہو۔ یہی وہ مرکزی محور اور نقطہ ہے جو ہمہ گیر ہے ورنہ قرآن وکعبہ اور واجبات وعقائد سب مشترک ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک انسانی شخصیت کے ایک پہلو مثلا عقائد، محبت، روحانی میلان، کردار وغیرہ سے متعلق ہیں اور مذکورہ مفاہیم مسلمانوں کے مابین مختلف تشریحات اور تفاسیر کے حامل ہیں لیکن وہ چیز جو تمام مسلمانوں میں فکری واعتقادی بالخصوص جذبات و احساسات کے حوالے سے اتحاد و یکجہتی کا محور بن سکتی ہے، خود پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰی (ص) کا مبارک وجود ہے۔اسکی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اور اس محبت میں روز بروز آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور آپ کے مقدس وجود کی طرف معنوی اور روحانی رجحان کو مسلمانوں اور اقوام عالم کی ہر فرد کے ذہن میں اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دشمن کی اسلامی تہذیب کے خلاف سازشوں کے دھارے کا سب سے بڑا نشانہ پیغمبر اسلام(ص)کا نورانی وجود ہے (مرتد رشدی کی) شیطانی آیات نامی کتاب میں بھی جس حساس نقطہ کو نشانہ بنایا گیا ہے، حضرت محمد مصطفٰی (ص)کی ذات اور صفات ہیں اور دشمن کی اس گندی سازش سے معلوم ہو گیا کہ وہ مسلمانوں کے عقائد اور احساسات کے کس محور پر نظر گڑائے ہوئے ہے۔
https://urdu.khamenei.ir
متعلقہ تحریریں:
حضرت محمد مصطفی(ص) کی ولادت با سعادت کے وقت حیرت انگیزواقعات کا ظہور
بیّنہ کی تعریف